Maktaba Wahhabi

539 - 579
ہے۔[1] ان میں سے اگر کسی سے گناہ سرزد ہو گیا تھا تو اس نے توبہ کر لی تھی یا اس سے گناہ کو مٹانے والی کوئی نیکی عمل میں آ گئی تھی یا اس کے سابقہ فضل کی وجہ سے وہ قصور معاف ہو گیا ہے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے مغفور ہو جائے گا، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کے سب سے زیادہ مستحق یہی گروہِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہے یا دین میں کسی بلا وآزمایش میں مبتلا ہو کر ان کے گناہ کا کفارہ ہو چکا۔ پس جب ان کے ثابت شدہ گناہوں کی یہ بات ہے تو پھر ان امور کا کیا ذکر جن میں وہ مجتہد تھے؟ اگر وہ درست ہو گا تو دو اجر ملیں گے اور اگر ان سے خطا ہو گئی ہو گی تو انھیں ایک اجر ملے گا۔ ان کے گناہ کی تھوڑی سی مقدار ان کے حسنات اور فضائل کثیرہ کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ یقینا وہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ساری مخلوق میں سے بہتر اور افضل ہیں، ان کی مثل کوئی نہیں ہو سکتا۔ وہ صفوہ امت اور خیر امم تھے۔ وہ اللہ جل وعلا کے ہاں مکرم ہیں۔ ان میں سے جس کسی کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی گواہی دی ہے، یقینا وہ بہشتی ہے۔ ہم لوگ کسی غیر کے لیے یہ گواہی نہیں دیں گے، بلکہ ہم محسن کے لیے امیدوار اور گناہ گار کے لیے خائف رہیں گے اور مخلوق کے متعلق علم کو خالق کے حوالے کریں گے، ہم کسی موحد کے لیے بعینہ جنتی ہونے کا حکم نہ لگائیں گے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ انھیں جہاں چاہے لے جائے، ہاں ہم ان کے متعلق یوں کہیں گے کہ ان کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے، اگر وہ چاہے تو معاصی کے ارتکاب پر انھیں عذاب میں مبتلا کرے اور اگر چاہے تو انھیں بخش دے۔ ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ ہم یہ ایمان رکھتے ہیں کہ موحدین کی ایک قوم سنتِ صحیحہ کے مطابق آگ سے باہر نکلے گی، إن شاء اللّٰہ تعالیٰ کراماتِ اولیا: ہم کراماتِ اولیا اور ان خوارقِ عادات امور کی تصدیق کرتے ہیں جو انواعِ علوم، مکاشفات اور تاثیرات کی صورت میں ان کے ہاتھ پر جاری ہوتے ہیں جس طرح کہ اممِ سالفہ سے ایسے امور کا ذکر سورۃ الکہف اور سورت مریم وغیرہ میں آیا ہے اور اس امت کے علما اور اولیا سے ان کا صدور ہوا ہے۔ یہ کرامت تا قیامِ قیامت صلحاے امت کے ہاتھ پر پائی جائے گی، لیکن یہ کرامت وکشف احکامِ شریعت خصوصاً اس امر میں جو ظاہر کتاب وسنت کے مخالف ہے، حجت نہیں ہے اور صاحبِ کرامت و ولایت
Flag Counter