Maktaba Wahhabi

530 - 579
ہونے سے خارج نہیں کرتی۔ جو شخص قرآن مجید کو مخلوق کہے، وہ جہمی اور کافر ہے۔ جو شخص کلام اللہ کہہ کر قرآن مجید کی عدم مخلوقیت میں توقف کرے وہ قول اول سے بھی ناپاک تر ہے اور جو شخص تلفظ وتلاوت کو مخلوق ٹھہرائے وہ بھی جہمی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام سے کلام کیا تھا اپنے ہاتھ سے ان کے ہاتھ میں تورات دی تھی، تورات کو اپنے ہاتھ سے لکھا تھا جس طرح آدم علیہ السلام کو اپنے ہاتھ سے بنایا ہے۔ اس نے جنت عدن کی بنیاد اپنے ہاتھ سے رکھی ہے۔ وہ ہمیشہ متکلم ہے۔ اس کلام کے حروف ومعانی سب اللہ جل وعلا کا کلام ہے، نہ یہ کہ حروف کلام ہوں اور معانی کلام نہ ہوں یا اس کے برعکس۔ حرف و صوت: حروفِ مکتوبہ اور اصواتِ مسموعہ عین کلامِ الٰہی ہیں۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ الٓمّٓ * ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیْہِ﴾[البقرۃ: ۱،۲] [الٓمٓ۔ یہ کتاب، اس میں کوئی شک نہیں] نیز ا س نے مختلف سورتوں کے شروع میں یہ حروف مقطعات ارشاد فرمائے ہیں: ﴿المص﴾، ﴿الر﴾، ﴿کھیعص﴾اور ﴿حمعسق جو شخص ان حروف کو اللہ تعالیٰ کا کلام نہ کہے، وہ دین سے الگ اور جماعتِ مسلمین سے خارج ہے۔ ان کے حروف ہونے کا منکر مکابر اور بہتان باندھنے والا ہے۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی مرفوع حدیث میں بیان ہوا ہے: (( مَنْ قَرَأَ حَرْفاً مِنْ کِتَابِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ فَلَہٗ عَشْرُ حَسَنَاتٍ ))[1] [جس نے اللہ عزوجل کی کتاب سے ایک حرف پڑھا اسے دس نیکیاں حاصل ہوں گی] حشر کے بیان والی حدیث میں ہے: (( فَیُنَادِیْھِمْ سُبْحَانَہٗ وَ تَعَالیٰ بِصَوْتٍ یَّسْمَعُہُ مَنْ بَعُدَ کَمَا یَسْمَعُہُ مَنْ قَرُبَ )) [2] [اللہ سبحانہ وتعالیٰ انھیں ایسی آواز کے ساتھ پکارے گا جسے دور والا بھی اس طرح سن لے گا جس طرح قریب والے کو وہ آواز سنائی دے گی] (رواہ أحمد والجماعۃ من الأئمۃ، واستشھد بہ البخاري إلی غیر ذلک من الأدلۃ الدالۃ علی ثبوت
Flag Counter