Maktaba Wahhabi

140 - 579
صفت ہے۔ آدمی پر اس کے ساتھ ایمان لانا اور اس کا حتمی علم اللہ کے سپرد کرنا واجب ہے۔[1] تیرھواں قول: ’’غنیۃ الطالبین‘‘ میں لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے حدیں ثابت کرنا جائز نہیں ہے، مگر وہ جو ذکر کیا گیا ہے کہ اللہ عرش پر مستوی ہے۔[2] یعنی یہ تحدید جائز ہے۔ چودھواں قول: ’’کتاب البہجۃ‘‘ میں ہے کہ ہمارا رب عرش پر مستوی ہے اور ملک پر محتوی ہے۔ اس کی دلیل قرآن مجید میں موجود سات آیات ہیں۔ اس مقدمے میں جاہل کی جہالت اور اس کی رعونت و سرکشی کے سبب میں ان کا ذکر نہیں کروں گا۔[3] انتھیٰ۔ یہ دونوں کتابیں شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ کی تصانیف ہیں۔ پندرھواں قول: امام رازی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کے عرش پر مستوی ہونے کے ثبوت میں یہ آیتیں پڑھتا ہوں: ﴿ اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی﴾[طٰہٰ: ۵] [وہ بے حد رحم والا عرش پر بلند ہوا] ﴿اِلَیْہِ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ﴾[الفاطر: ۱۰] [اسی کی طرف ہر پا کیزہ بات چڑھتی ہے] اور اس کی کیفیت کی نفی میں یہ آیتیں تلاوت کرتا ہوں: ﴿ لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ﴾[الشوریٰ: ۱۱] [اس کی مثل کوئی چیز نہیں] اور ﴿ وَ لَا یُحِیْطُوْنَ بِہٖ﴾[طٰہٰ: ۱۱۰] [اور وہ اس کا احاطہ نہیں کرسکتے] اور جو شخص ان آیتوں کو میرے سمجھنے کی طرح سمجھے گا تو وہ میرے پہنچاننے کی طرح پہچان لے گا۔[4] اس قول میں صفتِ استوا اور جہتِ فوق دونوں کا اثبات ہے۔ سولھواں قول: امام غزالی رحمہ اللہ نے ’’احیاء العلوم‘‘، ’’کیمیاے سعادت‘‘ اور ’’اربعین فی اصول الدین‘‘
Flag Counter