Maktaba Wahhabi

492 - 579
آسمانوں و زمینوں کی وسعتوں کا بیان: آفتاب کی وسعت کو آسمان کی وسعت کے مقابلے میں قیاس کرو کہ وہ کتنی ہو گی، آفتاب آسمان میں دریا میں کشتی کی مانند تیرتا پھرتا ہے۔ آسمان اول کی فراخی، آسمان دوم کی فراخی کے مقابلے میں بہت مختصر ہے۔ اسی طرح آسمان دوم کا حال آسمان سوم کی نسبت آسمان ہفتم تک ہے۔ زمین سے آسمان تک پانچ سو برس کا فاصلہ ہے۔ اسی طرح ایک آسمان کا دوسرے آسمان تک۔ پھر یہ ساتوں آسمان اور ساتوں زمینیں کرسی کی وسعت کے سامنے آسمان کے مقابلے میں ایک قبے کی مانند ہیں۔ ارشادِ الٰہی ہے: ﴿وَسِعَ کُرْسِیُّہُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ﴾[البقرۃ: ۲۵۵] [اس کی کرسی آسمانوں اور زمین کو سمائے ہوئے ہے] پھر کرسی عرش عظیم کی فراخی کی نسبت یہی حکم رکھتی ہے۔ مفضلہ فرقے کی گمراہی کا بیان: پس جب شیخین کی فضیلت پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع واقع ہو چکا اور اس اجماع کے ساتھ علی مرتضی رضی اللہ عنہ بھی متفق تھے تو مفضلہ اپنے اعتقاد میں غلطی پر ہیں۔ وہ کون سا ازلی بدبخت ہو گا جسے علی مرتضی رضی اللہ عنہ کے ساتھ محبت نہ ہو گی، یہ تو مفضلہ کا محض گمان ہے کہ علی مرتضی رضی اللہ عنہ کے ساتھ محبت کا ثمر ان کی موافقت کرنا ہے نہ کہ ان کی مخالفت، جب کہ خود علی مرتضی رضی اللہ عنہ نے شیخین اور عثمان رضی اللہ عنہم کو اپنے اوپر فضیلت دی ہے۔ وہ ان کے مقتدی رہے اور ان کے عہدِ خلافت کے احکام بجا لائے۔ علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ محبت کی شرط تو یہ ہے کہ بندہ راہ و روش میں علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے موافق ہو نہ کہ ان کے مخالف۔ کیا مفضلہ یہ خیال کرتے ہیں کہ سائر اصحاب رضی اللہ عنہم نے چشم پوشی کی اور اظہارِ حق سے سکوت کیا اور شیخین و ذوالنورین رضی اللہ عنہم بغیر کسی استحقاق وتقدم کے خلیفہ بن بیٹھے اور متغلب وخائن ہو گئے؟ ان سے یہ امر محال ہے۔ اگر ان سے ذرہ برابر بھی تفاوت ہوتا تو اللہ عزوجل قرآن مجید میں ان کی صفت ہر گز بیان نہ کرتا اور اگر یہ رائی کے دانے کے برابر بھی عہدِ نبوی کو توڑتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم امت کو ان کی اقتدا کا حکم ہر گز نہ دیتے۔ اللہ جل و علا ان کے حق میں یہ نہ کہتا: ﴿ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ
Flag Counter