Maktaba Wahhabi

482 - 579
ہو اس سے گریز کرے، اسی کو حقیقی تقوی کہتے ہیں، چنانچہ آیتِ کریمہ: ﴿اِتَّقُوا اللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ﴾[آل عمران: ۱۰۲] سے یہی تقوی مراد ہے اور دوسرا تقوی شرع میں مشہور ہے۔ جب تقوے کا اطلاق کیا جاتا ہے اور کوئی قرینہ موجود نہیں ہوتا تو اس سے یہی تقوی مراد ہوتا ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ انسان اپنے نفس کو ہر اس چیز سے بچائے جس سے وہ سزا کا مستحق ہو جاتا ہے، خواہ وہ چیز قول ہو یا فعل یا ترک۔ اس تقوے میں کبائر سے اجتناب کرنا لازم ہوا اور صغائر میں قدرے اختلاف ہے۔ یہ تقوی تب ہی حاصل ہوتا ہے جب بندہ منکرات اور امورِ منہیہ سے اجتناب کرے اور معروفات اور امورِ مامورہ کو بجا لائے۔ ان منکرات اور معروفات کا ہر ایک عضو سے تعلق ہے۔ لہٰذا طالبِ نجات کو چاہیے کہ وہ ان چیزوں کی طرف آنکھ نہ اٹھائے جن کی طرف دیکھنا منع ہے، ایسی چیز پر کان نہ لگائے جس کا سننا حرام ہے، وہ نہ پکڑے جس کا پکڑنا گناہ ہے، وہ نہ کھائے جس کی اجازت نہیں ہے، وہ نہ پیئے جس کا پینا نا جائز ہے، بے فائدہ اور بے ہودہ بات منہ سے نہ نکالے، وہ راستہ نہ چلے جس سے منع کیا گیا ہے، وہ نہ پہنے جس کا پہننا حرام ہے۔ ایسے ہی وہ حرام سجدے سے بچے اور اپنی شرمگاہ کو محرمات میں استعمال نہ کرے، وعلی ھذا القیاس۔ اصلاحِ قلب اور اس کی اہمیت: منکرات میں سے اعظم اور بڑا منکر انسان کا دل ہے، کیونکہ اس کے فساد وبگاڑ سے سارا بدن فاسد ہو جاتا ہے، لہٰذا اس کی اصلاح کرنا تمام اشیا سے زیادہ اہم ہے، کیوں کہ سارے اعضا اسی کے تابع ہیں۔ دل کا فساد اخلاقِ سیئہ سے ہوا کرتا ہے اور اس کی اصلاح اخلاق حسنہ سے ہوتی ہے۔ لہٰذا اسے چاہیے کہ وہ ہر بدعت کو اس کے مقابل نیک عادت سے تبدیل کرے، چنانچہ وہ کفر کو ایمان سے، نفاق کو اخلاص سے، غضب کو رضا سے، اشتغال بالغیر کو اشتغال بالحق سے تبدیل کرے۔ علی ہذا القیاس جب ہر کام میں تقوی مد نظر ہو گا تو رفتہ رفتہ یہ منکرات معروفات سے بدل جائیں گی اور بدعادتیں نیک خصلتوں کے ساتھ بدل جائیں گی۔ فضائل حاصل ہوں گے اور رزائل ایک ایک کر کے دور ہو جائیں گے۔ پھر تھوڑا تھوڑا کر کے اشتغال بالغیر کم ہونے لگے گا اور اس کی بجائے اشتغال بالحق قوت پکڑے گا۔ یہاں تک کہ دل اشتغال بالغیر سے بالکل نجات پا جائے گا اور تمام وکمال جناب حق تعالیٰ کی طرف مائل ہو جائے گا۔ اس وقت اللہ تعالیٰ معرفت حقیقی کا دریچہ دل پر کھول دیں گے اور بطریق
Flag Counter