Maktaba Wahhabi

452 - 579
کے بعد خلافت اپنے اختتام کو پہنچ گئی اور بادشاہی کا آغاز ہو گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ سب سے افضل انسان ہیں۔ ہمارا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ اس طرح من جمیع الوجوہ افضلیت رکھتے ہیں، یہاں تک کہ فضیلتِ نسب، شجاعت، قوت، علم اور اس جیسی دیگر خوبیوں اور کمالات کو بھی عام اور شامل ہو، بلکہ اس فضلیت سے مراد نفعِ اسلام میں زیادہ ہونا ہے۔ اشاعتِ حق میں ہمت بالغہ کے اعتبار سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو امیر امت اور وزیر امت یہی ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما تھے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو جہتیں رکھتے تھے۔ ایک جہت سے اللہ تعالیٰ سے اخذ کرتے اور دوسری جہت سے مخلوق کو دیتے۔ پس ان دونوں صاحبوں کو اعطاے خلق کی بابت اس تالیف، جمع اور تدبیرِ حرب میں ید طولیٰ حاصل تھا۔ اس اعتبار سے انھیں دوسروں پر فضلیت حاصل ہے۔ یوں تو سارے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم دین میں ہمارے امام اور پیشوا ہیں، چنانچہ انھیں برا کہنا حرام اور ان کی تعظیم کرنا واجب ہے۔ 21۔ اہلِ قبلہ میں سے ہم کسی کو کافر نہیں کہتے، مگر اس امر میں جس میں صانع، قادر اور مختار کی نفی ہو، یا غیر اللہ کی عبادت ہو، یا انکارِ معاد یا نبی اور تمام ضروریاتِ دین کا انکار ہو۔ 22۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر واجب ہے بشرطے کہ وہ کسی فتنے میں مبتلا نہ کرے اور یہ گمان ہو کہ وہ امر ونہی مقبول ہو گی۔ ’’فھدہ عقیدتي أدین اللّٰہ تعالیٰ بھا ظاہرا وباطنا، والحمد للّٰہ أولا وآخرا‘‘ انتھیٰ حسن العقیدۃ۔ [پس یہ (مذکورہ بالا) میرا عقیدہ ہے، ظاہر وباطن میں، میں ان عقائد کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے ساتھ دین کا تعلق رکھتا ہوں، اول وآخر سب تعریف اللہ کے لیے ہے] اس اعتقاد کے بعض الفاظ پر کتاب ’’الانتقاد الرجیح بشرح الاعتقاد الصحیح‘‘ میں تنقید کی گئی ہے، و اللّٰہ أعلم۔ شرک کی حقیقت: چونکہ عقیدے کا دارو مدار ردِ شرک، اختیارِ توحید اور مسئلۂ صفات پر ہے، اس لیے یہاں ’’حجۃ اللّٰہ البالغہ‘‘ کو ’’حسن العقیدہ‘‘ کا ضمیمہ بنایا گیا ہے۔
Flag Counter