Maktaba Wahhabi

459 - 579
مجھ پر یہ بات واضح ہوئی ہے کہ ان کی یہ زبان درازی کوئی حیثیت نہیں رکھتی ہے اور روایتاً اور درایتاً وہ اپنی اس بات میں اور ائمہ ہدی پر طعن کرنے میں خطاکار ہیں۔‘‘[1] عبادت اللہ کا بندوں کے ذمے حق ہے: عبادت اللہ کا بندوں پر حق ہے، اس لیے کہ منعم حقیقی وہی ہے اور وہی اپنے ارادے سے ان کو جزا دے گا۔ یہ عبادت بندوں سے مطلوب ہے جس طرح کہ تمام اہلِ حقوق دوسروں سے اپنے اپنے حقوق کا مطالبہ کیا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے شعائر کی تعظیم: شرائع کی تعظیم اللہ تعالیٰ کی تعظیم کا حصہ ہے اور اس سے اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل ہوتا ہے، چنانچہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ مَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآئِرَ اللّٰہِ فَاِنَّھَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبِ﴾[الحج: ۳۲] [اور جو اللہ کے نام کی چیزوں کی تعظیم کرتا ہے تو یقینا یہ دلوں کے تقوے سے ہے] میں کہتا ہوں کہ شعائر اور شرائعِ الٰہیہ کی تعظیم اسی جگہ پائی جاتی ہے جہاں کسی انسان کی طرف سے شریعت میں کوئی زیادتی اور نقصان ظاہر نہیں ہوتا ہے اور جس جگہ اہلِ بدعت نے اپنی مستحسنات کو شرع کے ساتھ ملا دیا ہے، وہاں یہ تعظیم بالکل مفقود ہے۔ آیتِ کریمہ: ﴿ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا﴾[المائدۃ: ۳] [آج میں نے تمھارے لیے تمھارا دین کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمھارے لیے اسلام کو دین کی حیثیت سے پسند کر لیا] بلند آواز سے یہ پکارتی ہے کہ دین کامل، نعمتِ دین تمام اور اسلام مرضیِ خالقِ انام ہے، اس میں اب کوئی کمی اور بیشی نہیں ہو سکتی ہے۔ اب جس کسی نے آراے رجال یا اہلِ ہوا کی قیل وقال کو اپنا پسندیدہ دین ٹھہرایا وہ اس آیت کا مخالف ہے، اس نے اس شریعت کی اور اللہ تعالیٰ کے شعائر کی کوئی وقعت نہ سمجھی۔ اس نے تو گویا اپنے ہواے نفس کو اپنا معبود بنایا اور وہ مشرک یا مبتدع ہو گیا۔
Flag Counter