Maktaba Wahhabi

226 - 579
’’أنت مخیر بین کتابتہ وترکہ‘‘ [تمھیں اس کو لکھنے اور چھوڑنے کا اختیار ہے] چنانچہ امام زہری رحمہ اللہ تابعین کے کلام کو لکھتے تھے، جب کہ صالح بن کیسان رحمہ اللہ کا عمل اس کے برعکس تھا، لیکن بعد ازاں وہ تابعین کا کلام نہ لکھنے پر نادم ہوئے۔ علامہ ابن رجب رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ہمارے زمانے میں ائمہ سلف امام شافعی، احمد، اسحاق اور ابو عبید رحمہم اللہ کے دور تک علماے امت کا کلام لکھنا متعین تھا۔ سلف کے بعد والے علم کی حیثیت: آدمی کو چاہیے کہ وہ سلف کے بعد ایجاد ہونے والے علم سے بچے اور خبر دار رہے، کیوں کہ سلف کے بعد بہت سے حوادث معرض موجود میں آئے اور ایسے لوگ پیدا ہوئے جو متابعتِ حدیث کی طرف منسوب ہیں جیسے ظاہریہ وغیرہ۔ لیکن یہ لوگ ائمہ سے شذوذ کے سبب ان اسلاف کے سخت مخالف ہیں۔ وہ اپنے فہم میں ان سے منفرد اور الگ ہو گئے ہیں۔ جس بات کو ائمہ نے اپنے سے پہلے لوگوں سے اخذ نہ کیا تھا، یہ اسے اخذ کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ متکلمین اور فلاسفہ کے کلام میں داخل ہونا محض شر ہے۔ ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ کوئی شخص ان فنون میں داخل ہو اور متکلمین کے عیوب و نقائص سے آلودہ نہ ہو۔ امام احمد رحمہ اللہ نے فرمایا ہے: ’’علم کلام میں نظر رکھنے والا اس بات سے محفوظ نہیں رہتا کہ وہ جہمیہ میں شمار ہو۔‘‘ اسی طرح باقی ائمہ سلف نے اہلِ کلام سے، اگرچہ وہ سنت کا دفاع ہی کیوں نہ کر رہے ہوں، خبردار رہنے اور ان سے بچ کر رہنے کی تلقین کی ہے۔ علم باطن ۔۔۔ بدعی علوم میں سے ایک علم ہے: محدثاتِ علوم میں سے ایک علم علومِ باطنہ میں محض رائے یا ذوق یا کشف کے ساتھ کلام کرنا ہے، جیسے معارف و اعمالِ قلوب اور اس کے توابع میں کلام کرنا، کیونکہ ایسا کرنا بہت خطرناک ہے۔ اعیانِ ائمہ، جیسے امام احمد رحمہ اللہ وغیرہ، نے اس امر پر انکار فرمایا ہے۔ امام ابو سلیمان رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’کوئی علمی نکتہ مجھے معلوم ہوتا ہے تو میں اسے قبول نہیں کرتا الا یہ کہ اس کے دو عادل گواہ ہوں۔ ایک کتاب اللہ اور دوسری سنتِ رسولِ اللہ۔‘‘ جنید رحمہ اللہ نے فرمایا ہے:
Flag Counter