Maktaba Wahhabi

487 - 579
ہے، چنانچہ اس نوع کو صفات سلبی کہتے ہیں۔ سارے اسما وصفات انھیں تین قسموں میں منحصر ہیں، لیکن صفات اضافی میں، جو اول، آخر، ظاہر اور باطن ہیں، یوں کہا ہے کہ اول عینِ آخریت میں ہے اور آخر عینِ اولیت میں، ظاہر عینِ باطنیت میں ہے اور باطن عینِ ظاہریت میں ہے۔ اس بات پر اجماع ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں وجہ، ید، نفس، سمع اور بصر کا ذکر کیا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے صحیح رکھا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے لیے بلا تمثیل و تعطیل ثابت ہے۔ صفتِ استوا علی العرش معلوم ہے، اس کی کیفیت مجہول ہے، اس پر ایمان لانا واجب ہے اور اس سے متعلق سوال کرنا بدعت ہے۔ صفت نزول میں ان (صوفیہ) کا مذہب بھی اسی طریق پر ہے۔ قرآن غیر مخلوق اور بہشت میں دیدارِ الٰہی برحق ہے: اس پر بھی اجماع ہے کہ قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے، اس کا کلام قدیم ہے، مخلوق نہیں ہے، مصاحف میں لکھا ہے، زبانوں پر پڑھا گیا ہے اور دلوں میں محفوظ ہے، لیکن ان چیزوں میں حلول کرنے والا نہیں ہے۔ اسی طرح بہشت میں سر کی آنکھوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رویت کے جواز پر اجماع ہے۔ اس مسئلے میں معتزلہ، زیدیہ اور خوارج مخالف ہیں اور وہ رویت کے منکر ہیں۔ کتاب اﷲ اور حدیث مصطفی کی خبر پر ایمان لانا واجب ہے: اس پر اجماع ہے کہ ان سب امور کا اقرار کرنا اور ان پر ایمان لانا واجب ہے جنھیں اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی خبر دی ہے، جیسے بہشت، دوزخ، لوح، قلم، حوض، صراط، شفاعت، میزان، حور، قصور، عذابِ قبر، سوال منکر ونکیر اور بعث بعد الموت۔ اس پر بھی ایمان لانا واجب ہے کہ بہشت اور دوزخ باقی اور پایندہ رہیں گی اور بہشتی ہمیشہ منعم اور دوزخی ہمیشہ معذب ہوں گے۔ افعالِ عباد اﷲ کی مخلوق ہیں: اس پر اجماع ہے کہ اللہ تعالیٰ بندوں کے افعال کا خالق ہے، جس طرح وہ ان کی ذات کا خالق ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿وَاللّٰہُ خَلَقَکُمْ وَمَا تَعْمَلُوْنَ﴾[الصافات: ۹۶] [حالانکہ اللہ ہی نے تمھیں پیدا کیا اور اسے بھی جو تم کرتے ہو]
Flag Counter