Maktaba Wahhabi

536 - 579
یہ دونوں شفاعتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مخصوص ہیں۔ تیسری شفاعت ان لوگوں کی ہو گی جو نارِ جہنم کے مستحق ٹھہر چکے ہوں گے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کی بنا پر ایک قوم آگ میں نہیں جائے گی۔ اس شفاعت میں خود رسول اللہ صلي الله عليه وسلم ، صدیقین، شہدا، صالحین، تمام مومنین، ملائکہ، علما اور اطفال وغیرہ شریک ہوں گے۔ لیکن یہ شفاعت انھیں کے لیے ہو گی جنھیں اللہ عزوجل پسند فرمائے گا اور وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوں گے۔ البتہ کافروں کو شفاعت کرنے والوں کی شفاعت کچھ نفع نہ دے گی، وہ ابد الآباد تک جہنم میں ہمیشہ رہیں گے۔ اس جگہ کفار سے مراد اہلِ شرک و کفر، اصحابِ تکذیب، اصحابِ بدع مکفرہ اور صفاتِ کفر سے متصف لوگ ہیں، عیاذاً باللّٰہ منہم۔ ایک قوم جو دوزخ میں جا چکی ہو گی اور جل بھن کر کوئلہ بن گئی ہو گی، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے باہر نکلے گی۔ کچھ لوگ محض اللہ تعالیٰ کے فضلِ کثیر اور رحمتِ واسعہ سے نجات پائیں گے۔ جنت میں کچھ جگہ خالی رہے گی، اللہ تعالیٰ اس کے لیے کچھ لوگوں کو پیدا کر کے جنت میں داخل کرے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ شفاعت اللہ تعالیٰ کے اذن واجازت سے ہو گی، چنانچہ قرآن مجید میں اس اذن کی صراحت کی گئی ہے، فرمایا: ﴿مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہٗٓ اِلَّا بِاِذْنِہٖ﴾[البقرۃ: ۲۵۵] [کون ہے وہ جو اس کے پاس اس کی اجازت کے بغیر سفارش کرے] پس سارے سفارشی اس اذن کے نیچے داخل ہیں۔ کوئی شخص اذنِ الٰہی کے بغیر کسی شخص کی شفاعت کر سکتا ہے نہ کسی شخص کو دنیا میں یہ بات معلوم ہے کہ میری شفاعت ہو گی، کیونکہ اس علمِ غیب کا تعلق اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے، کسی دوسرے کو اس کی خبر نہیں ہو سکتی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عزت وحرمت: عقیدہ اہلِ سنت وجماعت کی ایک بنیاد یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضی اللہ عنہم کی طرف سے دل سلامت اور ان کی جانب سے سینہ صاف ہو، جس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿وَالَّذِیْنَ جَآؤا مِنْم بَعْدِھِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِاِِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِِیْمَانِ وَلاَ تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَآ اِِنَّکَ رَؤفٌ رَّحِیْمٌ﴾ [الحشر: ۱۰]
Flag Counter