Maktaba Wahhabi

262 - 579
ٹھہرا دیا۔ چوتھی قوم کے ساتھ یہ کھیل کھیلا کہ ان پر دن رات میں پچاس نمازیں واجب کیں۔ پانچویں قوم کو یہ سکھا دیا کہ سترہ نمازیں فرض ہیں اور ہر نماز میں پندرہ رکعتیں ہیں، چنانچہ عبد اللہ بن عمرو بن الحارث کندی، خارجی صفری ہونے سے پہلے اسی کا قائل تھا۔ پھر عبد اللہ بن سبا حمیری یہودی نے اہلِ اسلام کو فریب دینے کے لیے اسلام کا اظہار کیا۔ اصل میں عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے قتل پر لوگوں کو بھڑکانے والا یہی شخص تھا، چنانچہ علی رضی اللہ عنہ نے اس کی پارٹی کے چند گروہوں کو آگ میں جلا دیا، کیونکہ وہ کھلم کھلا علی رضی اللہ عنہ کی الوہیت کا اعلان کرتے تھے۔ انہی اصول سے فرقہ اسماعیلیہ اور قرامطہ کا حدوث ہوا۔ مقریزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس میں ذرا بھر بھی شک و شبہہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کا دین ظاہر ہے، اس میں کوئی باطن نہیں ہے، اور یہ جوہر ہے اس کے نیچے کوئی راز نہیں ہے، ہر کسی پر یہ دین لازم ہے کسی کے لیے اس میں کوئی رعایت اور گنجایش نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شریعت میں سے کوئی چیز نہیں چھپائی ہے اور نہ اپنی کسی زوجہ یا چچا زاد میں سے کسی خاص شخص کو شریعت کی کسی چیز پر مطلع کیا ہے جسے کسی لال یا کالی چمڑی والے سے چھپایا تھا یا بکریاں چرانے والوں سے پوشیدہ رکھا تھا۔ نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی راز یا رمز یا باطن تھا سوائے اس کے جس کی طرف سارے لوگوں کو دعوت دیتے تھے۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ بھی چھپاتے تو اللہ کے امر کی تبلیغ نہ ہوتی۔ لہٰذا جو شخص اس بات کا قائل ہے کہ انھوں نے کچھ چھپا کر رکھا، وہ باجماعِ امت کافر ہے۔ ہر بدعت کی اصل کلامِ سلف سے انحراف ہے: مقریزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: دین میں ہر بدعت کی اصل اور بنیاد کلامِ سلف سے بُعد اور صدر اول کے اعتقاد سے انحراف کرنا ہے۔ یہاں تک کہ قدری نے قدر میں مبالغہ کر کے بندے کو اپنے افعال کا خالق ٹھہرا دیا اور جبری نے قدری کے بالمقابل بندے کے فعل اور اختیار کو بالکل سلب کر لیا۔ معطل نے تنزیہ میں اتنا مبالغہ کیا کہ اللہ تعالیٰ سے اس کی صفاتِ جلال اور نعوتِ کمال کو مسلوب ٹھہرا دیا، مشبہہ نے بمقابلہ معطل ایسا مبالغہ کیا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو ایک بشر کی مثل بنا دیا، عیاذاً باللہ۔ مرجی نے سلب عقاب میں مبالغہ کیا۔ معتزلی نے تخلید عذاب میں مبالغہ فرمایا۔ ناصبی نے سیدنا علی مرتضی رضی اللہ عنہ کی امامت کے
Flag Counter