Maktaba Wahhabi

55 - 579
کوئی کسی کا سفارشی نہیں بن سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی شفاعت کرنے والے کو اس کی اجازت دے گا، تب کہیں وہ شفاعت کے لیے زبان کھولے گا اور شفاعت قبول کرنے والا بھی اللہ ہی ہے۔ شفاعت حصولِ رحمت کا ذریعہ ہے: یہ شفاعت رحمتِ الٰہی کے اسباب میں سے ایک سبب ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے گا یہ رحمت کرے گا۔ اللہ تعالیٰ کی اس رحمتِ شفاعت کے سب سے بڑے مستحق اہلِ تو حید اور اہلِ اخلاص ہیں۔ جو شخص اخلاص میں اکمل ہوگا، وہی اس رحمت کا حق دار ٹھہرے گا اور جن گناہ گاروں کے گناہ ان کی نیکیوں پر راجح اور غالب ہوں گے اور ان کی نیکیوں والے ترازو ہلکے پڑ جائیں گے، وہ دوزخ کی آگ کے مستحق ہوں گے۔ پھر ان میں سے جو ’’لا الٰہ الا اللّٰه‘‘ پڑھنے والے ہوں گے، ان کے گناہوں کے سبب انھیں آگ ملے گی اور اللہ ان کو ایک طرح کی موت دے گا۔ جہنم کی آگ انھیں جلا ڈالے گی، مگر سجود والی جگہوں کو نہیں جلائے گی۔ پھر اللہ تعالیٰ انھیں شفاعت کے سبب آگ سے نکال کر جنت میں داخل کرے گا۔ یہ بات احادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔[1] اس سے ثابت ہوا کہ شفاعت کا سارا دار و مدار کلمہ اخلاص پر ہے اور وہ کلمہ یہ ہے: ’’لا إلٰہ إلا اللّٰہ ‘‘ شفاعت کا انحصار شرک پر نہیں ہے، جس طرح یہ جاہل بلکہ اَجہل گمان کرتے ہیں۔[2] انتھٰی۔ کیا حصولِ شفاعت کے لیے کسی قسم کے شرک کا مرتکب نہ ہونا شرط ہے؟ جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ آیا شفاعت کی یہ کارروائی صرف اسی مسلمان کے حق میں ہو گی جس سے شرک کا بالکل ارتکاب نہ ہوا ہو؟ تو اس سوال کا جواب یہ ہے کہ مومن سے جو شرک اصغر سر زد ہو جاتا ہے اور اللہ و رسول کے حکم کی اطاعت کی کوشش کے باوجود اپنے کسی کام کے متعلق یہ نہیں جانتا کہ یہ شرک ہے تو امید ہے کہ اس کا یہ معاملہ اسے وعدۂ مغفرت سے خارج نہیں کرے گا، کیوں کہ اس طرح کی اشیا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے صادر ہو گئی تھیں، جیسے باپ دادوں یا کعبہ کی قسم کھانے کا کام یا یہ کہنا کہ ’’ما شاء اللّٰہ و شئت‘‘[جو اللہ چاہے اور آپ(صلی اللہ علیہ وسلم)چاہیں] یا یہ کہنا: ’’ما شاء محمد‘‘
Flag Counter