Maktaba Wahhabi

481 - 579
احادیث مبارکہ میں بھی تقوے کے بارے میں تفصیلِ خیر بیان ہوئی ہے۔ ﴿ اِِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰکُمْ﴾[الحجرات: ۱۳] جو شخص متقی ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اس کا محب، ولی اور مزکی وناصر رہتا ہے، اس کے لیے حسن عاقبت اور حسن ماٰب مہیا ہوتا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کا مقرب ہے، اس کے حق میں جنت کا وعدہ ہے، یہ تقوی اس کا زاد ولباس ہے۔ ثواب، دفعِ کید، امداد، مغفرت، رحمت، گناہوں کے کفارے اور حصولِ برکات کی شرط اور سبب ہے اور حق وباطل کے درمیان ایک تفرقہ اور فرق ہے، تنگی معاش سے خروج ہے اور رزق کا اس جگہ سے ملنا ہے جہاں سے گمان بھی نہ ہو اور یہ اس کے لیے اجرِ عظیم، صلاحِ عمل، فلاح حال اور شکر کا موجب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو حکم دیا ہے کہ وہ تقوے میں ایک دوسرے کے معاون رہیں۔ جو شخص اس تقوے کا حکم دیتا ہے اس کی مدح کی ہے اور سارے اولین وآخرین کو اسی تقوے کی وصیت کی ہے۔ اگر طالبِ نجات اور سالکِ سبیل آخرت طلبِ سکون کے دعوے میں سچا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ عاشقِ تقوی رہے اور ایسے انداز میں اس کا شیفتہ وفریفتہ ہو کہ پھر کوئی چیز اسے تقوے سے نہ روک سکے، اگرچہ سارے جن وانس اس کے خلاف جمع ہو جائیں۔ شیطان کی عداوت: شیطان انسان کا ایک قوی دشمن ہے، اس کی فریب کاریوں سے کتاب وسنت کے توسل کے بغیر امن حاصل نہیں ہو سکتا۔ نفسِ امارہ شیطان کا خادم ہے وہ جس طرح چاہتا ہے اسے کھینچ لیتا ہے۔ آدمی کو تقوے کی ظاہری صورت دکھا کر تقوے کے معنی سے عاری کر دیتا ہے جس طرح کہ اکثر اہلِ دعوی کے حالات سے ظاہر ہے، لہٰذا مکائدِ نفس سے بھی پرہیز کرنا ضروری اور لازم ہے۔ تقوے کا معنی و مفہوم: تقوے کے معنی کو خوب پہچان لینا چاہیے، تا کہ اس کا استعمال آسان ہو جائے۔ لغوی لحاظ سے تقوی پرہیز گاری کو کہتے ہیں، جبکہ شریعت میں اس کے ایک عام معنی ہیں اور ایک خاص۔ عام معنی اس چیز سے اجتناب کرنا ہے جو آخرت میں مضر ہو، یہ صورت زیادت اور نقصان کو قبول کرتی ہے، اس کا ادنا درجہ یہ ہے کہ وہ شرک سے بچے جو آگ کو واجب کرنے اور دوزخ میں ہمیشہ رہنے کا سبب ہے۔ اس کا اعلا درجہ یہ ہے کہ جو چیز سالک کو حق تعالیٰ سے باز رکھے اور منقطع الی اللہ ہونے سے مانع
Flag Counter