Maktaba Wahhabi

542 - 579
گئی اور اس تقلید کی وجہ سے انھوں نے کتاب وسنت میں نظر کرنا ترک کر دیا، لیکن اگر کوئی شخص انصاف کے ساتھ قرآن وحدیث میں نظر کرتا ہے تو حق صراح اس پر مخفی نہیں رہتا۔ مدائنِ اسلام اور بلادِ ایمان میں شدائد و مصائب کے وقت ہمیشہ اللہ وحدہ لا شریک لہ کے ساتھ استغاثہ اور استعانت ہوتی تھی، مگر اب ایک جہان نے مشائخ واولیا کا دامن پکڑ رکھا ہے، إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون۔ غیر اللہ کی نذر ونیاز: من جملہ اس باب کے متعلقہ مسائل میں ایک مسئلہ اولیا، قباب، مشاہد، قبور اور ضرائحِ صلحا کے واسطے نذر ونیاز کرنا ہے، حالانکہ صحیح احادیث میں نذر سے صریح ممانعت آئی ہے[1] اور اس میں اللہ تعالیٰ کی بے ادبی اور رب رحیم کے ساتھ بدگمانی ہے، اس لیے مذکورہ نہی کو تحریم پر محمول کرنا موکد ہے۔ نذر قضا کو پھیرتی ہے نہ کچھ نفع دیتی ہے، وہ ضرر کو دور کرتی ہے نہ کسی خیر کو کھینچتی ہے۔ ہاں بخیل کے مال کو برآمد کرتی ہے۔ صحیح اور صریح دلائل کے ساتھ قبوں پر نذریں ماننے کی تحریم ثابت ہے اور یہ وہ عمل ہے جس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اذن نہیں دیا ہے۔ صحیحین میں آیا ہے: (( مَنْ عَمِلَ عَمَلاً لَیْسَ عَلَیْہِ أَمَرُنَا فَھُوَ رَدٌّ )) [2] [جس شخص نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا امر وحکم نہ ہو تو وہ مردود ہے] یہ حدیث غیر شرعی معاملات کے بطلان اور ان پر ثمراتِ خیر کے نہ ملنے کی دلیل ہے۔ خواہ وہ شخص جہل سے یہ کام کرے یا معرفتِ حق کے بعد ایسے فعل کا مرتکب ہو پس یہ سب نذور محرم اور باطل ہیں۔ اسی طرح وہ اموال جو کعبہ مکرمہ اور مسجدِ نبوی پر وقف کیے جاتے ہیں، ان کو یہاں وقف کرنے کے بجائے مصالح مسلمین پر خرچ کرنا بہتر ہے۔ جو لوگ انبیا کی قبروں کو مسجد ٹھہراتے ہیں اور اس طرف یا ان کے قریب نماز پڑھتے ہیں، حدیث میں ان پر لعنت آئی ہے۔[3] پھر قبورِ صلحا، مشاہدِ اولیا اور ضرائحِ اصفیا کا کیا ذکر ہے۔ وہ شخص جو قبر کو نافع یا ضار یا متصرف یا فیاض جانتا ہے وہ تو پکا مشرک ہے۔ حدیث میں قبر کا حکم یہ آیا ہے کہ جس قبر کو اونچا پائے اسے زمین کے برابر کر دے۔[4] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
Flag Counter