Maktaba Wahhabi

52 - 579
ہے کہ کوئی یہ سمجھ لے کہ یہ آیات اور احادیث ہم پر صادق نہیں آتی ہیں، ان کے مصداق زمانہ نبوت کے مشرک، مقلد اور اہلِ جاہلیت تھے، لیکن اس اعتقاد میں شریعت اسلامیہ کا ابطال اور دین حق کے قبول کرنے سے صریح انکار ہے۔ جو شخص بھی اس قسم کا گمان رکھتا ہے، وہ مسلمان نہیں بلکہ مشرک، بے دین اور زندیق و مرتد ہے۔ اللہ کے مقرب اور جنت کے مستحق کون ہیں؟ اس سے بڑا شرک کیاہو گا کہ لوگ بعض افرادِ امت کو، چاہے وہ ولی ہوں یا پیر و شہید (بزعم خود) اپنا سفارشی اور اللہ تعالیٰ کا مقرب سمجھ لیں، جبکہ ہم تو انبیا اور ان کے اصحاب و اہل بیت کے سوا، جن کے جنتی ہونے کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گواہی دی ہے، کسی کے لیے قطعی طور پر جنتی ہونے کا حکم نہیں لگا سکتے۔ ہمیں یہ علم غیب بھی نہیں ہے کہ کس کا خاتمہ بالخیر ہوا اور کس کا خاتمہ بالخیر نہیں ہوا۔ ہاں جس شخص کو ہم نے صالح اور متقی پایا اور وہ اسی حالت پر فوت ہوا، اس کے حق میں ہم حسن ظن تو رکھتے ہیں، مگر اس کے حق میں ہمارے حسن ظن سے یہ لازم نہیں آتا کہ ہم اسے اللہ کے ہاں اپنا سفارشی اور اس کے قریب کرنے والا قرار دیں۔ مشرک اور بدعتی حقیقی اولیا کی سفارش سے محروم ہیں: اگر ہمیں بعض اولیا و اتقیا کے حسنِ خاتمہ اور ان کی مغفرت و بخشش کا یقین کامل بھی ہو جائے تب بھی ہمیں یہ معلوم ہے کہ وہ اللہ کے ہاں کسی مشرک اور بدعتی کی سفارش نہیں کریں گے۔ اگر وہ ایساکرنا چاہیں تو پھر وہ اولیاء اللہ نہ ہوئے، بلکہ اعداء اللہ ہوئے کہ اس کی مرضی کے خلاف جراَت کرنے کو تیار ہیں۔ لے سانس بھی آہستہ: اولیا اور صلحا کا یہاں ذکر کرنا اور اللہ کے قریب کرنے اور شفاعت کرنے کے فعل کو انجام دینے کے لیے ان کا نام لینا سرے ہی سے غلط ہے، کیوں کہ ایک نبی و رسول سے بڑھ کر کوئی انسان و بشر اللہ کے ہاں بزرگ تر اور مقرب تر نہیں ہوتا ہے۔ ملائکہ بھی مقربین بزرگ ہیں، لہٰذا جب رسل و ملائکہ اللہ کی مرضی اور اجازت کے بغیر کسی کی سفارش نہیں کریں گے تو کسی دوسرے کی کیا وقعت اور ہستی ہے کہ وہ یہ کام سر انجام دے سکے؟!
Flag Counter