Maktaba Wahhabi

513 - 579
ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرمایا تھا: ﴿ اِذْ یُرِیْکَھُمُ اللّٰہُ فِیْ مَنَامِکَ قَلِیْلًا﴾[الأنفال: ۴۳] [جب اللہ تجھے تیرے خواب میں دکھا رہا تھا کہ وہ تھوڑے ہیں] تم حسنِ اقتدا کو لازم پکڑو، یقینا ہدایت یافتہ بن جاؤ گے۔ صحابہ اور اہلِ بیت کی محبت: نبوت کی میراث علم ہے، اس علم کے وارث اصحاب واہلِ بیت رسالت ہیں، تجھ پران سب کی محبت واجب ہے، تو ایک جہت کی طرف مائل ہو کر دوسری جہت کو نہ چھوڑ کہ یہ ہویٰ ہے۔ صحابہ اور عترت کے بارے میں عصبیت وخوض کے ساتھ اشتغال اہلِ باطل کا شیوہ ہے۔ ایک قوم نے گمراہی کے ساتھ قرار پکڑا اور شرعی مخالفات اور ممنوعات کے ارتکاب پر جرات کی۔ انھوں نے اپنے اس زعم وگمان کو محبت سمجھا اور ان کے دل نے ان سے یہ کہہ دیا کہ یہ محبت تمھارے کام آئے گی، حالانکہ بات یہ نہیں ہے، بلکہ جب تک وہ جادہ مستقیم پر قائم نہ ہوں گے تب تک یہ محبت تقوے کے بغیر کار آمد نہ ہو گی۔ جب نماز فوت ہوئی، اوقات ضائع ہوئے، گناہ کا ارتکاب ہوا اور محارم مباح ہوئے تو اب یہ محبت کس طرح یہ نقصان پورا کرے گی۔ فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھنا واجب ہے اور یہی بات ہر مومن کے دل میں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول سنا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کے حق میں کیا کہا تھا: (( فَاطِمَۃُ بُضْعَۃٌ مِّنِّيْ )) [1] [فاطمہ میرے جسم کا ٹکڑا ہے] پھر بھی یہ فرمایا تھا: (( اِعْمَلِيْ لَا أُغْنِيْ عَنْکِ مِنَ اللّٰہِ شَیْئاً )) [2] [عمل کرو، میں اللہ کے ہاں تمھیں کچھ کفایت نہیں کر سکتا] پھر یہ بھی سنا ہو گا کہ فاطمہ کا دنیا میں زہد، ان کا علم، عمل، تجرع، مرارتِ فقر، قلت، حسنِ صبر اور احتساب کیسا تھا تو یہی امور دل میں ان کی محبت کے موجب ہیں۔ اگر ان میں یہ صفات ظاہرہ نہ ہوتی تو مجرد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان کے ساتھ باہمی نسبت محبت کی موجب نہ ہوتی۔ پھر جب کہ یہ سب اوصاف جمع ہو گئے تو اب ان کی محبت کس طرح واجب نہ ہو گی۔ حسن وحسین رضی اللہ عنہما، فاطمہ رضی اللہ عنہا کی
Flag Counter