Maktaba Wahhabi

596 - 579
یہ ہے وہ جسے ہم قانون فقہ کے لائق سمجھتے ہیں۔ یہ مسئلہ اتنا گہرا ہے کہ فقہا فقہ میں اس مسئلے پر بحث کرنے کے درپے نہیں ہوئے۔ جن لوگوں نے اس پر خوض وبحث کی ہے انہوں نے فقہا کے قوانین کو مدنظر نہیں رکھا۔ ان کو تو صرف دلوں کے تصفیے، تھوڑی سی بے احتیاطی کے ذریعے عبادت کو برباد کر لینے سے بجانے اور طلبِ اخلاص نے اس کام پر ابھارا۔ جو کچھ ہم نے ذکر کیا ہے ہماری نگاہ میں یہی قصد اور ارادہ ہے، جب کہ حقیقت کا علم تو اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ ریاکاری کے مختلف درجات: ریا کاری کے قبیح اور برا ہونے میں مختلف درجات ہیں۔ 1۔سب سے بری ریا وہ ہے جو ایمان میں ہو۔ یہ ریا کاری منافقین کی شان ہے جن کی اللہ تعالیٰ نے کتاب عزیز میں کثرت سے مذمت کی ہے اور انھیں یہ وعید سنائی ہے: ﴿ اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ فِی الدَّرْکِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِ﴾[النسائ: ۱۴۵] [بے شک منافق لوگ آگ کے سب سے نچلے درجے میں ہوں گے] یہ لوگ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور کے بعد بہت تھوڑے رہ گئے۔ 2۔ہاں جو لوگ برائی اور خرابی میں ان کی مثل ہیں وہ کثرت سے موجود ہیں، جیسے انکارِ حشر یا اللہ تعالیٰ کے جزئیات کے علم کا انکار یا اباحتِ مطلقہ کا اعتقاد جیسی بدعات کے معتقدین، حالانکہ اس کے خلاف اظہار کرتے ہیں۔ اس سے بری ریا کاری کوئی نہیں ہے۔ 3۔انہی کے قریب وہ لوگ ہیں جو اصول عباداتِ واجبہ میں ریا کرتے ہیں کہ خلوت میں تارکِ عبادت ہیں اور جلوت میں فاعل۔ وہ یہ کام مذمت کے خوف سے کرتے ہیں، حالانکہ یہ ریاکاری بھی اللہ تعالیٰ کے نزدیک بڑا گناہ ہے، کیونکہ یہ غایت جہل پر مبنی اور برائی کی بری قسموں پر منتھی ہوتی ہے۔ 4۔ان کے قریب وہ لوگ ہیں جو نوافل میں ریا کاری کرتے ہیں، یعنی نوافل کی اتنی عادت رکھتے ہیں کہ کہیں وہ ناقص نہ ٹھہر جائیں اور خلوت میں سہل انگاری اور اس کے ثواب میں عدمِ رغبت ہوتی ہے۔ 5۔اس سے قریب وہ لوگ ہیں جو اوصاف عبادت میں ریا کاری کا مظاہرہ کرتے ہیں، جیسے جلوت میں تحسینِ نماز، اطالتِ ارکان، اظہارِ تخشع اور استکمالِ سائر مکملات اور خلوت میں ادنا واجبات پر
Flag Counter