Maktaba Wahhabi

42 - 579
1۔وہ معبود اس چیز کا مالک ہو جو عابد کو اس سے مطلوب ہے۔ 2۔اگر وہ کلی مالک نہیں تو مالک کا شریک ہو۔ 3۔ اگر وہ مالک کا شریک بھی نہیں ہے تو اس کا معاون و مددگار ہو۔ 4۔اگر وہ معاون و مددگار بھی نہیں ہے تو مالک کے پاس اس کا سفارشی ہو۔ مگر اللہ تعالیٰ نے ان تمام مراتب اور خوبیوں کی نفی کی ہے۔ مِلک اور شرکت کی نفی کی اور اسی طرح معاونت اور شفاعت کی بھی نفی فرما دی، جو مشرک کا مطلوب و مقصود ہے۔ صرف اسی شفاعت کا اثبات کیا جس میں مشرک کا کوئی حصہ نہیں ہے اور یہ وہ شفاعت ہے جو اللہ تعالیٰ کی اجازت کے ساتھ ہو گی۔ لہٰذا مذکورہ بالا آیت ایک نور، برہان، نجات اور تجرید توحید کی دلیل ہے اور شرک کے اصول اور موادکی بیخ کنی کرتی ہے۔ جو سمجھنے والا ہے وہ اسے بہ خوبی سمجھتا ہے۔ یہی ایک آیت نہیں بلکہ قرآن مجید تو اس طرح کی آیتوں اور اس کے نظائر، اَشباہ اور اَمثال سے بھرا پڑا ہے، لیکن اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان آیات کا موجودہ دور کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ ایک غلط فہمی اور اس کا ازالہ: آج کے لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ جس نوع اور قوم کے متعلق مذکورہ بالا آیت نازل ہوئی تھی، اس قوم کے لوگ چل بسے اور انھوںنے اپنا کوئی وارث نہیں چھوڑا۔ یہی وہ باطل گمان ہے جو انسان کے دل اور قرآن فہمی کے درمیان حائل ہوتا ہے۔ زمانۂ جاہلیت سے ناواقفیت شرک کا سبب ہے: ہم قسم اٹھا کر کہتے ہیں کہ اگرچہ وہ لوگ چل بسے ہیں، مگر ان جیسے یا ان سے بھی بد تر اور کمتر ان کے وارث موجود ہیں اور قرآنی آیات ان کو اسی طرح شامل ہیں جس طرح پہلے مشرکوں کو شامل تھیں۔ لیکن اصل بات وہ ہے جو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہی تھی: ’’إنما تنقض عریٰ الإسلام عروۃ عروۃ إذا نشأ في الإسلام من لم یعرف الجاہلیۃ‘‘[1] [جب اسلام میں وہ لوگ پیدا ہو جائیں گے جو زمانہ جاہلیت (کے حالات) سے ناواقف
Flag Counter