Maktaba Wahhabi

471 - 579
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کی صفتِ علو کے ثبوت میں اس طرح کے کئی ایک دلائل موجود ہیں، چنانچہ یہ دلائل اس امر پر نص یا ظاہر ہیں کہ اللہ تعالیٰ عرش پر اپنی مخلوقات سے اس طرح جدا اور الگ ہے جس طرح کہ اس کی ذاتِ قدس کے لائق ہے اور ان کی تاویل کرنا نص یا ظاہر کو اس کے معنی سے نکالنے کے مترادف ہے جو صرف اسی وقت جائز ہے جب کوئی اس جیسی نص یا ظاہر اس کے خلاف آ جائے، وگرنہ درست نہیں اور یہاں کسی مخالف دلیل کا وجود نہیں اور اللہ تعالیٰ کا یہ قول: ﴿لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ﴾[الشوریٰ: ۱۱] [اس کی مثل کوئی چیز نہیں] بھی اس کے منافی نہیں ہے، کیوں کہ یا تو جمیع وجوہ کے ساتھ مماثلت مراد ہے جس طرح اہلِ سنت کہتے ہیں یا اخص اوصاف میں جس طرح معتزلہ کا قول ہے۔ پس مماثلت کی یہ دونوں صورتیں اس جگہ مفقود ہیں اور اس سے باری تعالیٰ کا ایک حال سے دوسرے حال پر تغیر، جو امارات حدوث ہے، لازم نہیں آتا ہے، کیوں کہ جس طرح ایجادِ عالم اور تسمیہ بالموجد سے کوئی تغیر نہیں ہوا ہے، اسی طرح عرش کو پیدا کرنے اور اس پر مستوی ہونے سے بھی کوئی تغیر نہیں ہوتا ہے۔ احادیث میں استوا کا ثبوت: احادیث نبویہ میں یہی حکم پایا جاتا ہے۔ لہٰذا جو کچھ ان احادیث میں بیان ہوا ہے اس سب پر ایمان لانا چاہیے اس میں کسی طرح کی تاویل و تحریف کرنا ہرگز جائز نہیں۔ اس موضوع کے دلائل مندرجہ ذیل احادیث بھی ہیں: 1۔ بخاری ومسلم میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اس لوح محفوظ کے حق میں مروی ہے جس پر یہ لکھا گیا ہے: (( سَبَقَتْ رَحْمَتِيْ عَلٰی غَضَبِيْ فَھُوَ عِنْدَہٗ فَوْقَ الْعَرْشِ )) [1] [میری رحمت میرے غضب پر سبقت کر گئی، پس یہ (تحریر) اس کے پاس عرش کے اوپر ہے] دوسری روایت میں لفظ (( مَوْضُوْعٌ )) اور تیسری روایت میں (( مَکْتُوْبَۃٌ عِنْدَہٗ )) [2] آیا ہے۔ 2۔ بخاری میں معراج کے قصے میں انس رضی اللہ عنہ سے یوں مروی ہے: (( دَنَا الْجَبَّارُ رَبُّ الْعِزَّۃِ وَتَدَلّٰی ))
Flag Counter