Maktaba Wahhabi

83 - 579
اس کی ذات و صفات میں تبدل ہوتا اور نہ اس میں جہل و کذب جیسے نقائص ہیں۔ ہم مانتے ہیں کہ مذکورہ الفاظ کے معانی درست ہیں، لیکن ذاتِ الٰہیہ کے لیے کتاب و سنت میں استعمال ہونے والے الفاظ کے سامنے ان لفظوں کی کوئی حاجت اور حیثیت نہیں ہے۔ استوا علی العرش: اللہ تعالیٰ عرش پر ہے۔ اللہ تعالیٰ کے عرش پر مستوی ہونے کا ذکر قرآن مجید میں سات جگہ پر آیا ہے اور احادیث میں بے شمار جگہ یہ صفت مذکور ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو اپنا و صف استوا علی العرش بیان کیا ہے، ہم اس پر ایمان لاتے ہیں۔ ہمیں اس کی کیفیت جاننے اور اس کی تاویل کرنے سے کوئی سروکار نہیں۔ اس کے علو و تفوق اور اس عليّ و اَعلی کے عرش عظیم پر مستوی ہونے کے ثبوت پر قرآن و حدیث میں بہت سے دلائل موجود ہیں۔ ان دلائل کا ایک خاطر خواہ حصہ رسالۂ ’’الانتقاد الرجیح بشرح الاعتقاد الصحیح‘‘ میں ذکر کیا گیا ہے۔ سارے سلف صالحین یعنی صحابہ و تابعین اور ائمہ مجتہدین رضی اللہ عنہم اسی کے قائل تھے۔ اللہ تعالیٰ کے تفوق اور استوا کی کنہ (حقیقت) اللہ کے سوا کسی کو معلوم نہیں ہے۔ جو لوگ علم میں پختہ ہیں، وہ تو اس کے متعلق یہ کہتے ہیں: ﴿ اٰمَنَّا بِہٖ کُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا ﴾[آل عمران: ۷] [ہم اس پر ایمان لائے، سب ہمارے رب کی طرف سے ہے] قواعدِ عربیت کے مطابق یہی قول آیت کے ظاہر کے ساتھ زیادہ مشابہت رکھتا ہے۔ سیدنا انس، ابو امامہ اور ابوالدردائ رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ ’’راسخین فی العلم‘‘ کون لوگ ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( مَنْ بَرَّتْ یَمِیْنُہٗ، وَصَدَقَ لِسَانُہٗ، وَاسْتَقَامَ قَلْبُہٗ، وَعَفَّ بَطْنُہٗ وَفَرْجُہٗ، فَذٰلِکَ مِنَ الرَّاسِخِیْنَ فِيْ العِلْمِ )) [1] [وہ جو قسم اور بات میں سچا، دل کا سیدھا اور شکم و شرمگاہ کا پارسا ہے، وہ ’’راسخین فی العلم‘‘ میں سے ہے]
Flag Counter