Maktaba Wahhabi

175 - 579
گیارھویں فصل صفتِ استوا وغیرہ کی نفی جہمیہ اور معتزلہ کا عقیدہ ہے سب سے پہلے جس نے استوا کا انکار کیا، وہ جہم بن صفوان ہے۔ ’’غنیۃ الطالبین‘‘ میں لکھا ہے: ’’وہ (جہم بن صفوان) کہتا تھا: اللہ کا عرش اور کرسی نہیں ہے اور نہ وہ عرش کے اوپر (مستوی) ہے۔‘‘[1] انتہیٰ ملا علی قاری رحمہ اللہ نے ’’شرح فقہ اکبر‘‘ میں لکھا ہے: ’’جہم بن صفوان کہتا تھا: میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ آیتِ استوا قرآن مجید سے کھرچ ڈالی جائے۔‘‘[2] انتہیٰ ’’اعلام الموقعین‘‘ میں ہے کہ جہمیہ و معتزلہ کے پیروکاروں کے نزدیک اللہ کی طرف حسّاً اشارہ کرنا ممتنع ہے۔[3] انتہیٰ۔ پھر معتزلہ، قدریہ اور سالمیہ نے اس اشارے کا انکار کیا۔ ’’غنیۃ الطالبین‘‘ میں ہے: ’’ان ساری صفات کا انکار اور نفی کرنا جو شرع سے ثابت ہیں،[4] یہ وہ چیز ہے جس پر سارے معتزلی فرقوں کا اتفاق ہے، جیسے استوا اور نزول وغیرہ۔‘‘ انتھیٰ ملخصاً۔ پھر فرقہ سالمیہ کے تذکرے میں ان کا یہ قول لکھا ہوا ہے کہ اللہ ہر مکان میں ہے، عرش وغیرہ مکانات کا کچھ فرق نہیں ہے، مگر قرآن میں ان کی تکذیب موجود ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی﴾[طٰہٰ: ۵] [وہ بے حد رحم والا عرش پر بلند ہوا]
Flag Counter