Maktaba Wahhabi

66 - 360
حدیث کا اختلاف ہے کہ اسے یقین اور حتمی بات کا درجہ حاصل ہے یا محض غالب گمان کی حد تک محدود ہے۔ اس بنیاد پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر کوئی مسلمان حدیث الاحاد کا انکار کردے یا اس کے متعلق شک وشبہ میں مبتلا ہوجائے تو اسے خارج از اسلام تصور نہیں کیا جائے گا۔ ہاں اگر کوئی مسلمان اس حدیث کو بنیاد بنا کر پورے دین اسلام کا مذاق اُڑاتا ہے تو اسے بلاشبہ خارج از اسلام تصور کیا جائے گا۔ 4۔ اب رہی یہ بات کہ طب اور میڈیکل سائنس کی رو، سے یہ حدیث قابل قبول ہے کہ نہیں تو آپ جان لیں کہ بے شمار ماہرین علم طب نے اس حدیث کی حمایت میں اپنی راویوں کا اظہار کیا ہے۔ مثال کے طور پر میں ڈاکٹر امین رضا(اسکندریہ یونیورسٹی) کے ایک مقالے کا خلاصہ پیش کرتا ہوں۔ یہ مقالہ میگزین التوحید میں سن 1977ء میں شائع ہوا تھا۔ وہ لکھتے ہیں: 1۔ کسی شخص کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی حدیث نبوی کا محض اس بنیاد پر انکار کردے کہ وہ جدید علوم سے مطابقت نہیں رکھتی۔ کیونکہ جدید علوم تو ہنوز ترقی کی راہ پر گامزن ہیں۔ ترقی کے اس سفر میں جدید علوم اور جدید نظریات میں تبدیلیاں بھی ہوتی رہتی ہیں۔ آج ایک نظریہ صحیح ہے تو کل اسے غلط قراردیا جاتا ہے۔ 2۔ اس حدیث یا کسی بھی حدیث کومحض اس بنیاد پر ماننے سے انکار کردینا کہ وہ عقل سلیم سے متصادم ہے سراسر غیر معقول سی بات ہے۔ حدیث عقل سے متصادم ہورہی ہے تو اس میں ہماری عقل کا قصور ہے، حدیث کا نہیں۔ ہماری عقل تو ہنوزناپختہ ہے اور ہمارا علم ابھی تک کافی محدود ہے۔ اور جوباتیں ابھی تک ہمارے علم کے احاطے میں نہیں آسکی ہیں وہ بے شمار اور لامحدود ہیں۔ اس کے مقابلے میں وہ باتیں جن تک ہمارے علم کی رسائی ہوسکی ہے، وہ تو بہت محدود ہیں۔ اگر انسان یہ تصور کرلے کہ اب اس کا علم مکمل ہوچکا ہے اور تحقیق وجستجو کے سارے میدان سر کیے جاچکے ہیں۔ تو یہ انسان کی علمی موت ہے۔ اس لیے اگر حدیث عقل سے ٹکراتی ہے تو انصاف کی بات یہی ہے کہ قصور ہماری عقل کا
Flag Counter