Maktaba Wahhabi

278 - 360
جائز اور ناجائز طلاق سوال:۔ میں ایک شادی شدہ مرد ہوں۔ میری ایک بیٹی اور ایک بیٹا ہے ۔ بیوی کے ساتھ بعض اختلافات کی وجہ سے میں نے اسے طلاق دے دی۔ طلاق کے ایک ہفتہ کے بعد پتا چلا کہ میری بیوی حمل سے ہے۔ کیا یہ طلاق جائز اورصحیح ہے؟ جواب:۔ اسلامی شریعت کی نظر میں طلاق ایک تکلیف دہ آپریشن کی مانند ہے ۔ یہ تکلیف دہ آپریشن بذاتِ خود کسی تکلیف اور بیماری کو دور کرنے کے لیے اس وقت کیا جاتا ہے جب آپریشن کے علاوہ اور کوئی چارہ کار نہ ہو۔ طلاق بھی ایک تکلیف دہ عمل ہے، جس کااستعمال صرف انتہائی مجبوری کے موقع پر کسی تکلیف دہ حالت کودورکرنے کے لیے ہوناچاہیے۔ اس لیے حدیث ہے: "أَبْغَضُ الْحَلَالِ إِلَى اللّٰهِ تَعَالَى الطَّلَاقُ " (ابوداؤد) اللہ کے نزدیک سب سے ناپسندیدہ حلال شے طلاق ہے ۔ اس لیے اسلامی شریعت نے طلاق کے لیے شرطیں رکھی ہیں تاکہ ایسا نہ ہوکہ چھوٹے چھوٹے اسباب کی بنا پر ازدواجی زندگی تباہ ہونے لگے۔ ان شرطوں میں سے ایک شرط وقت کی شرط ہے۔ شوہر کو چاہیے کہ طلاق کے لیے کسی مناسب وقت کا انتخاب کرے۔ چنانچہ طلاق حیض کی حالت میں نہیں دینی چاہیے بلکہ پاکی کی حالت میں دینی چاہیے اور اُس پاکی میں جس میں ابھی اس نے بیوی کے ساتھ مباشرت نہ کی ہو۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ درج ذیل آیت کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس سے مقصود ایسی پاکی، جس میں مباشرت نہ ہوئی ہو۔ آیت۔ "يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ " (الطلاق:1) جب تم لوگ عورتوں کو طلاق دو تو انہیں ان کی عدت کے لیے طلاق دیا کرو ۔ اس میں مصلحت یہ ہے کہ حیض کی حالت نارمل حالت نہیں ہوتی ہے۔ ایسی حالت میں شوہر کے لیے مناسب نہیں کہ بیوی کو خود سے جدا کرے اور ایسی پاکی کی حالت میں
Flag Counter