Maktaba Wahhabi

48 - 360
ہے کہ یہ تشریحی کلمات قرآن کا جزو نہیں تھے بلکہ ان کی حیثیت محض تفسیریا تشریح کی تھی۔ چنانچہ اس آیت میں بھی"وصلوة العصر" کا اضافہ قرآن میں اضافہ نہیں بلکہ اس کی حیثیت محض تفسیر کی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی متعدد احادیث میں"الصَّلَاةِ الْوُسْطَىٰ"کی تشریح صلاۃالعصر بتائی ہے۔ عہد صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین سے ہی علماء وفقہاء کے درمیان اس امر میں اختلاف رہا ہے کہ "الصَّلَاةِ الْوُسْطَىٰ"سے کون سی نماز مُراد ہے۔ آیا یہ فجر کی نماز ہے؟یا ظہر کی یا عصر کی؟صحیح احادیث کی رو سے اس سے مراد عصر کی نماز ہے۔ گمان غالب یہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بھی اپنے ذاتی نسخے میں "الصَّلَاةِ الْوُسْطَىٰ" کی تفسیر کے لیے"وصلوة العصر" کا نوٹ چڑھالیا۔ اُس زمانہ میں اصل متن اور حاشیہ وتفسیر کو الگ الگ لکھنے کا کوئی قاعدہ موجود نہیں تھا۔ جیسے آج کل یہ قاعدہ پایا جاتا ہے۔ مثلاً قوسین کا استعمال کرکے یا الگ الگ رنگوں کی روشنائی استعمال کرکے وغیرہ وغیرہ۔ قرآن کا وہ نسخہ جواب ہمارے درمیان موجود ہے اور جسے نسخہ عثمانی بھی کہاجاتا ہے، حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی ترتیب وکتابت کے موقع پر یہ امر ملحوظ رکھا کہ اس قسم کے تمام حواشی اور تفسیری کلمات حذف کرڈالے جائیں اور قرآن کو اسی صورت میں پیش کریں جس صورت میں حضرت جبریل علیہ السلام رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے تھے اور اس بات پر تمام صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین اور ائمہ نے اتفاق کیا۔ اس طرح کے توضیحی کلمات کے اضافے کی اور بھی مثالیں ملتی ہیں۔ مثلاً عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ذاتی نسخے میں "فصيام ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ مُتَتَابِعَاتٍ"درج ہے"مُتَتَابِعَاتٍ"کے اضافے کے ساتھ۔ ظاہر ہے کہ یہ اضافہ انہوں نے محض تفسیر کی خاطر کیا ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے انہوں نے ان روزوں کے بارے میں یہی سناکہ ان روزوں کو پے درپے ہوجانا چاہیے۔ قرآن کی مختلف قراءتیں سوال:۔ میں مسجد میں جماعت کے انتظار میں بیٹھا تھا۔ میں نے تھوڑے سے وقت
Flag Counter