Maktaba Wahhabi

46 - 360
رہا یہ سوال کہ وہ کون سا چشمہ تھا جہاں سورج ڈوب رہا تھا اور کن قوموں سے ذوالقرنین نے ملاقات کی، اس بارے میں قرآن خاموش ہے۔ اس کے تذکرے میں اگر کوئی دینی یا دنیوی فائدہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ ہمیں ضرور بتاتا۔ قرآن میں جو کچھ اس واقعے کی تفصیل موجود ہے وہ یہ کہ ذوالقرنین مغرب کی طرف روانہ ہوا۔ جب وہ مغرب کے انتہائی سرے پر پہنچا تو وہاں سورج کو ایک چشمے میں غروب ہوتے ہوئے دیکھا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ واقعتاً سورج اس کیچڑ والے چشمے میں ڈوب رہا تھا بلکہ یہ محض ایک منظر کشی ہے کہ دیکھنے والے کو یہ محسوس ہورہا تھا کہ سورج اس چشمے کی آغوش میں دھیرے دھیرے جارہا ہے، ہوسکتا ہے کہ یہ جگہ ہوجہاں دریا کاگدلا پانی سمندر میں آگرتا ہے یا حقیقتاً وہ ایک ایسا چشمہ ہو جہاں کیچڑ کی بہتات ہو۔ مقصد بہرحال غروب شمس کی منظر کشی ہے۔ اور اس پورے واقعے کا مطلوب ومقصود ایک ایسے بادشاہ کی تصویر کشی ہے، جو اس سرزمین کے ایک بڑے علاقے کا واحد مضبوط ومستحکم بادشاہ ہوتے ہوئے بھی عدل وانصاف کا پیکر تھا۔ یہ سامان عبرت ہے عقل والوں کے لیے۔ اس موقع پر میں یہ بتانا چاہوں گا کہ ہمارے لیے یہی بہتر ہے کہ ہم اُسی پر اکتفا کریں، جس پر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے۔ خواہ مخواہ ایسے سوالات نہ کریں جس کاکوئی دینی یا دنیوی فائدہ نہ ہو۔ سورۃ توبہ میں بسم اللہ نہ لکھنے کی حکمت سوال:۔ سورہ توبہ بغیر بسم اللہ کے کیوں نازل ہوئی ہے؟ جواب:۔ اس سلسلے میں علماء کے مختلف اقوال ہیں۔ ان میں سب سے قرین قیاس رائے میری نظر میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی وجہ بتاتے ہوئے فرمایا کہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم موجب رحمت وامان ہے اور سورہ توبہ امان کے خاتمے اور جہاد کا اعلان ہے۔ (زادالمسیر:علامہ جوزی) چوں کہ مشرکین نے مسلمانوں کو دھوکا دیا اور معاہدے کی خلاف ورزی کرتے
Flag Counter