Maktaba Wahhabi

41 - 360
ہارون سے مراد مریم علیہا السلام کا ہم عصر کوئی دوسرا عابدوزاہدشخص بھی ہوسکتاہے۔ گویا کہ زھدوعبادت کی نسبت کے پیش نظر لوگوں نے انہیں ھارون کی بہن کہہ کر پکارا ہو۔ مسند احمد، صحیح مسلم اور ترمذی وغیرہ میں مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اہل نجران کی طرف بھیجا اور وہ سب عیسائی تھے۔ ان عیسائیوں نے مغیرہ بن شعبہ سے یا اُخت ھارون پراعتراض کیا کہ وہ ہارون کی بہن کیسے ہوسکتی ہیں حالاں کہ ان کے درمیان سینکڑوں سال کا فاصلہ ہے۔ مغیرہ بن شعبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے اوران لوگوں کا اعتراض آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم نے انہیں یہ بات نہیں بتائی کہ اس زمانہ میں لوگ اپنے بچوں کا نام انبیاء علیہ السلام وصالحین کے نام پر رکھتے تھے؟اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ ہارون سے مراد موسیٰ علیہ السلام کے بھائی نہیں ہیں جیسا کہ اہل نجران نے سمجھا بلکہ ہارون سے مراد مریم علیہا السلام کا ہی ہم عصر کوئی نیک اور عابد وزاہد شخص ہے جس کانام ہارون تھا۔ آیت "إِنَّ الْمُلُوك"۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سوال:۔ درج ذیل آیت کی توضیح وتشریح مطلوب ہے: "إِنَّ الْمُلُوك إِذَا دَخَلُوا قَرْيَة أَفْسَدُوهَا وَجَعَلُوا أَعِزَّة أَهْلهَا أَذِلَّة وَكَذَلِكَ يَفْعَلُونَ" (النمل:34) بادشاہ جب کسی ملک میں گھس آتے ہیں تو اسے خراب اور اس کے عزت والوں کو ذلیل کردیتے ہیں۔ یہی کچھ وہ کیا کرتے ہیں ۔ جواب:۔ اگر اس آیت کا یہ مفہوم لیا جائے کہ بادشاہ، خواہ کوئی بھی ہو بادشاہ ہو، جب کبھی کسی بستی میں فاتح ہوکرداخل ہوتا ہے تو وہ اسے تباہ برباد کردیتا ہے اور شرفاء کو ذلیل وخوار کرتاہے، تو یہ ایک غلط مفہوم ہوگا۔ اس آیت کے سیاق وسباق پر ایک نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ آیت ملکہ سبا بلقیس کے قصے کے ضمن میں نازل ہوئی ہے۔ ھد ھد نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو جب
Flag Counter