Maktaba Wahhabi

65 - 360
دے کیونکہ اس کے ایک پر میں بیماری ہے اور دوسرے میں شفا ۔ کیا یہ صحیح اور متفق علیہ حدیث ہے؟اگر کسی نے اس حدیث کا انکار کیا ہو تو وہ خارج از اسلام تصور کیا جائے گا؟عصر حاضر میں بعض ڈاکٹر حضرات اس حدیث کی صحت پر کلام کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ بعض اس کا مذاق اڑاتے ہیں کیونکہ جدید طب کی رو سے مکھی وبائی امراض پھیلانے کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ ابھی تک کسی نے مکھی کو علاج کی خاطر استعمال نہیں کیا حالانکہ حدیث کہتی ہے کہ اس کے ایک پَر میں شفا ہے۔ براہ کرم تسلی بخش جواب سے نوازیں۔ جواب:۔ میں ذیل میں اختصار کے ساتھ چند نکات میں جواب دینے کی کوشش کروں گا۔ 1۔ یہ حدیث صحیح تو ہے لیکن متفق علیہ نہیں ہے۔ اصطلاحاً متفق علیہ اس حدیث کو کہتے ہیں جو صحیح بخاری اور صحیح مسلم دونوں میں موجود ہو۔ زیر نظر حدیث صرف بخاری شریف میں ہے اور بخاری شریف کی حیثیت یہ ہے کہ علماء کرام نے ہر دور میں اسے قرآن کےبعد سب سے معتبر کتاب مانا ہے۔ 2۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس حدیث میں نہ تو کسی اصول دین کاتذکرہ ہے اور نہ اس میں عقیدے سے متعلق کوئی بات کہی گئی ہے ، نہ کسی فریضہ دین کا بیان ہے اور نہ حلال وحرام کا تذکرہ ہے، اگر کوئی مسلمان ساری عمر اس حدیث سے بے خبر رہےتو یہ بے خبری اس کی دین داری میں کوئی نقص تصور نہیں کی جائے گی۔ اور نہ اس کے عقیدے میں ہی کوئی خلل ہوگا۔ اب ظاہر ہے اس حدیث کو بنیاد بنا کرپورے دین اسلام کو استہزاء وتمسخر کانشانہ بنانا کسی طرح صحیح نہیں ہوسکتا۔ 3۔ یہ حدیث گرچہ صحیح حدیث کے درجے میں ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ اس کا شمار حدیث الاحاد میں ہوتا ہے ۔ یعنی تواتر کے ساتھ اس حدیث کی روایت نہیں ہے بلکہ کسی ایک ہی راوی نے اس کی روایت کی ہے۔ حدیث الاحاد کے متعلق علماء
Flag Counter