Maktaba Wahhabi

377 - 360
کی بخشی ہوئی نعمت ہے اور اسے واپس لینے کا حق صرف اللہ کو ہے اور خود کشی کا مطلب ہے کہ بندہ اللہ کی رحمت سے بالکل مایوس ہو گیا ہے اور اللہ کی رحمت سے مایوس مومن نہیں ہوتا بلکہ کافر ہوتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ کا ارشاد ہے: "إِنَّهُ لَا يَيْأَسُ مِن رَّوْحِ اللّٰهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْكَافِرُونَ" (یوسف:86) اللہ کی رحمت سے تو بس کافر ہی مایوس ہوا کرتے ہیں۔ اس لیے میں آپ کو یہی وصیت کرتا ہوں کہ آپ صبر سے کام لیں۔ ایک نہ ایک دن آپ کی مصیبت ضرور دور ہوگی۔ ان شاء اللہ۔ گناہ کبیرہ سے تو بہ سوال:۔ اس شخص کے سلسلہ میں آپ کی کیا رائے ہے جس نے زنا جیسا فعل کیا ہویا پاک دامن عورت پر زنا کا جھوٹا الزام لگایا ہو یا لوگوں کا مال ناحق طریقے سے کھا یاہو۔ اس نے کبائر میں سے کسی ایک گناہ کا ارتکاب کیا ہو یا سارے گناہ کیے ہوں اور اب اس نے اللہ کے حضور اپنے ان گناہوں سے توبہ بھی کر لی ہو۔ جہاں تک لوگوں کا مال ناحق طریقے سے کھانے کا تعلق ہے تو اب اس کے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ وہ ان کا حق واپس کر سکے۔ تب اسے کیا کرنا چاہیے؟ جواب:۔ آپ نے جن تین گناہوں کا تذکرہ کیا ہے ان میں سے بعض کا تعلق حقوق اللہ سے ہے اور بعض کا حقو ق العبادسے۔ زنا کے بارے میں جمہور علمائے کرام کی رائے یہ ہے کہ اس کا تعلق حقوق اللہ سے ہے۔ چنانچہ جب کسی بندے سے یہ غلطی ہو جائے تو اسے چاہیے کہ اپنے کیے پر نادم ہو۔ اور اللہ سے مغفرت کی دعا کرے اور عزم مصمم کرے کہ اب آئندہ ایسی غلطی نہیں ہو گی اس توبہ کے بعد اللہ کی رحمت سے قوی امید ہے کہ اللہ اس بندے کی توبہ قبول کر لے گا اور اس کا گناہ معاف کردے گا۔ بعض سخت گیر قسم کے علماء کہتے ہیں کہ زنا کا تعلق حقوق العباد سے بھی ہے۔ اور زنا
Flag Counter