Maktaba Wahhabi

142 - 360
بہر حال ان سب فوائد کے باوجود اگر کوئی شخص فرض نمازوں پر ہی اکتفا کرتا ہے تو وہ گنہگار نہیں ہے ۔ کیونکہ اس نے اپنا فرض پورا کر دیا۔ ایک صحیح حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دیہاتی کے بارے میں فرمایا جس نے قسم کھائی تھی کہ وہ ان فرض کاموں میں سے نہ کچھ کم کرے گا اور نہ زیادہ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دیہاتی کے بارے میں فرمایا اگر کوئی شخص کسی جنتی کو دیکھنا چاہتا ہے تو اس دیہاتی کو دیکھ لے۔ اس حدیث سے واضح ہے کہ صرف فرض کاموں پراکتفا کرنا باعث گناہ نہیں ہے۔ بلکہ اس کے برعکس اگر کوئی شخص فرض کاموں کو پابندی سے ادا کرتا ہے تو اس کے لیے جنت کی بشارت ہے۔ نماز میں خشوع وخضوع کی اہمیت سوال:۔ نماز میں خشوع و خضوع کی کیا اہمیت ہے؟ کیا اس کے بغیر نماز قبول نہیں؟ جواب:۔ پہلی صورت یہ ہے کہ نماز کے دوران ایسی حرکتیں کچھ زیادہ سر زد ہوں جو نماز کے منافی ہیں۔ مثلاً بدن کھجانا، ادھر اُدھر دیکھنا، بار بار اپنے کپڑوں کو درست کرنا وغیرہ غیرہ ۔ اس طرح حرکتیں اگر کثرت سے سر زد ہوں تو نماز باطل کر دیتی ہیں یعنی نماز ادا نہیں ہوتی۔ 2۔ دوسری صورت یہ ہے کہ نماز کے دوران ذہن کہیں اور مشغول ہو، نماز کی طرف دل حاضر نہ ہو یا چھوٹی موٹی نماز کے منافی حرکتیں بہت کم مقدار میں سر زد ہوں تو ان کی وجہ سے نماز اگرچہ باطل نہیں ہوتی لیکن نماز کا مقصد جاتا رہتا ہے اور نماز کی روح مفقود ہوجاتی ہے۔ نماز کی روح یہ ہے کہ نمازی زیادہ سے زیادہ خشوع و خضوع کے ساتھ اپنے رب کی طرف متوجہ ہو۔ اللہ فرماتا ہے: "قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ * الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ" (المومنون:1۔ 2) یقیناًفلاح پائی ایمان لانے والوں نے جو اپنی نماز میں خشوع اختیار
Flag Counter