Maktaba Wahhabi

36 - 360
بارش کی حقیقت سوال:۔ جدید سائنسی تحقیقات کی رو سے بارش دراصل اس بھاپ کا نتیجہ ہے، جو سمندروں اور دریاؤں سے اٹھتی ہے اور اوپر کی طرف جاتی ہے، حالانکہ قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس نے بارش کو اوپر سے نیچے کی طرف برسایا، کیا ان دونوں نظریات میں کوئی تناقض نہیں ہے؟ جواب:۔ میرے محترم بھائی! ان دونوں میں کوئی تناقض نہیں ہے۔ قرآن یہ کہتا ہے کہ"أَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً"یعنی خدا نے آسمان سے پانی برسایا۔ عربی زبان میں"السَّمَاءِ"کامفہوم صرف آسمان ہی نہیں ہوتا بلکہ اس کامفہوم بلندی بھی ہوتا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے بلندی کی طرف سے پانی برسایا اور حقیقت بھی یہی ہے کہ بارش اوپر ہی کی طرف سے نیچے کو آتی ہے۔ یہ بارش اس بھاپ کا نتیجہ ہوتی ہے جو سمندروں اور دریاؤں سے اٹھتی ہے۔ ہم جس زمین پر بستے ہیں اس کا دو تہائی حصہ پانی سے گھرا ہوا ہے۔ جب اس پانی پر سورج کی شدید اور طاقت ور کرنیں پڑتی ہیں، تو پانی کھول اٹھتا ہے اور پانی کا ایک حصہ بھاپ بن کر اوپر کی جانب اٹھتاہے۔ اوپر جاکر یہ بھاپ یا تو پہاڑوں کی چوٹیوں سے ٹکراتی ہے یاپھر یخ بستہ فضاؤں سے ان دونوں صورتوں میں یہ بھاپ بارش کی شکل میں زمین کی طرف آگرتی ہے۔ یوں اگر غور کریں تو بارش کی بنیاد زمین ہے نہ کہ آسمان ۔ یہی بات سورۃ النازعات میں اس طرح بیان کی گئی ہے: "وَالْأَرْضَ بَعْدَ ذَٰلِكَ دَحَاهَا ﴿٣٠﴾ أَخْرَجَ مِنْهَا مَاءَهَا وَمَرْعَاهَا " (النازعات:30۔ 31) اس کے بعد زمین کو اس نے بچھایا۔ اس کے اندر سے اس کاپانی اور چارہ نکالا۔ زمین ہی سے زمین کا پانی نکالا حالاں کہ پانی کا بیشتر حصہ بارش کی صورت میں آسمان کی طرف سے آتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بارش بھی زمین کا ایک حصہ ہے۔
Flag Counter