Maktaba Wahhabi

55 - 360
دین تو کیا اسکا چوتھائی حصہ بھی نہیں لیا۔ کیونکہ تاریخ اس بات پر شاہدہے کہ اسلامی تعلیمات کی نشر واشاعت میں سینکڑوں اور ہزاروں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین وصحابیات رضوان اللہ عنھن اجمعین نے حصہ لیا ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اس سینکڑے کی ایک اکائی ہیں۔ تاریخی حقائق سے ہٹ کر عقل کی کسوٹی پر بھی اگر اس حدیث کو پرکھا جائے تو عقل اسکے منافی ہے۔ اگر نصف دین عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی تعلیم پر موقوف ہے تو پھر ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ، علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے اکابرصحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا اس دین کی تعلیم میں کیا حصہ باقی رہتا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی احادیث کی تعداد تو اس سے کہیں کم ہے جو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہیں ۔ ہمیں چاہیے کہ شخصیات کے فضائل کے سلسلے میں جو احادیث ہم تک پہنچیں انہیں قبول کرنے میں نہایت احتیاط سے کام لیں کیوں کہ یہی وہ موضوع ہے جس میں حدیث گھڑنے والوں نے سب سے پہلے حدیث گھڑی۔ کسی شخصیت کی محبت وعقیدت میں غلو کرجانے والوں نے فضیلت ثابت کرنے کے لیے سینکڑوں کی تعداد میں حدیثیں گھڑی ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی فضیلت ثابت کرنے کے لیے وہ کچھ بہت کافی ہے جو سورہ نور میں اور صحیح احادیث میں موجود ہے ۔ اس کی چنداں ضرورت نہیں کہ ان کی فضیلت ثابت کرنے کےلیے گھڑی ہوئی حدیثوں کا سہارا لیں۔ اہل خانہ کی نوحہ خوانی کی وجہ سے میت کا عذاب میں مبتلا ہونا سوال:۔ مطالعے کے دوران ایک حدیث میری نظر سے گزری کہ: "أن الميت يعذب ببكاء أهله عليه" اہل خانہ کی آہ وبکا کی وجہ سے میت کو عذاب دیا جاتا ہے ۔ یہ حدیث اس لیے سمجھ نہیں آئی کہ اسلام کا اصولی حکم یہ ہے کہ ہر شخص صرف اپنے کئے کی سزا بھگتتا ہے۔ تو پھر وہ مردہ شخص دوسروں کی نوحہ خوانی کی پاداش میں کیوں کر عذاب کا مستحق ہوا؟اگر یہ حدیث صحیح ہے تو اس کی توضیح وتشریح مطلوب ہے۔
Flag Counter