Maktaba Wahhabi

188 - 360
"هي رخصة من الله لك، فمن أخذ بها فحسن، ومن أحب أن يصوم فلا جناح عليه " (نسائی) یہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہارے لیے چھوٹ ہے جس نے اس چھوٹ سے فائدہ اٹھایا تو بہتر ہے اور جس نے روزہ رکھا تو کوئی حرج نہیں۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس آیت میں مسافر کے لیے روزے کی قضا کی اجازت دی ہے یا اس میں رخصت کی علت سفر بتائی ہے نہ کہ سفر کی مشقت ۔ اس آیت میں یہ نہیں بتایا کہ سفر میں مشقت ہو تو قضا کی رخصت ہے ورنہ نہیں۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے صرف سفر کی بنا پر ہمیں یہ رخصت عطا کی ہے اور ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اس رخصت سے فائدہ اٹھائیں۔ خواہ مخواہ کی باریکیوں میں پڑ کر اس رخصت کو برباد نہ کریں۔ جو لوگ اکثر سفر میں رہتے ہیں وہ یہ بات بہ خوبی سمجھتے ہیں کہ سفر بہ ذات خود تکلیف دہ ہوتا ہے چاہے گاڑی کا سفر ہو یا ہوائی جہاز کا۔ انسان کا اپنے وطن سےدور ہونا بہ ذات خود پریشانیوں کا سبب ہے کیونکہ اس کی روزمرہ کی زندگی بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ اور انسان نفسیاتی طور پر بے چین رہتا ہے کیا عجب کہ اللہ تعالیٰ نے اس وجہ سےہمیں صرف سفر کی بنا پر یہ رخصت عطا کی ہو۔ صدقہ الفطر کی مقدار سوال:۔ صدقہ الفطر کی مقدار کیا ہر سال تبدیل ہوتی رہتی ہے؟ جواب:۔ صدقہ الفطر کی مقدار سال بہ سال تبدیل نہیں ہوتی بلکہ یہ ایک محدود اور متعین مقدار ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر کیا ہے۔ یہ مقدار ایک صاع یعنی تقریباً دو کلو گرام اناج ہے۔ میرے خیال میں صدقہ الفطر کو اناج کی صورت میں مقرر کرنے میں دو حکمتیں پوشیدہ ہیں۔ 1۔ پہلی حکمت یہ ہے کہ اس زمانے میں عربوں خاص کر دیہات میں رہنے والوں کے پاس دینار درہم (پیسوں )کے مقابلے میں اناج اور غلہ زیادہ موجود ہوتا تھا۔ بہت
Flag Counter