Maktaba Wahhabi

347 - 360
ہے کہ اس نے چھینک کے ذریعہ سے ایک تکلیف دور کی، پھر اس پر الحمدللہ کہنا واجب ہے تاکہ تکلیف دور ہونے کے بعد بندے کو ثواب بھی ملے ۔ پھر اس ثواب میں آس پاس کے لوگوں کو بھی شریک کیا۔ جب وہ یرحمک اللہ کہتے ہیں۔ اور یہ سب کچھ ایک لمحہ میں ہو جا تا ہے۔(7) 2۔ دین اسلام چاہتا ہے کہ مسلمانوں کے درمیان زیادہ اخوت و محبت پروان چڑھے اور ہر اس عادت و خصلت کی اسلام نے نفی کی ہے جس میں انانیت غرور اور حسد وغیرہ جیسے رذائل اخلاق پوشیدہ ہوں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ چھینک پر الحمد للہ کہنا اور اس کے جواب میں یرحمک اللہ کہنا اس اخوت و محبت کی عملی تربیت ہے۔ اور ساتھ ہی ساتھ دونوں کے دلوں کو ایک دوسرے کے لیے غرور اور حسد سے پاک کرنے کا ذریعہ بھی ہے۔ 3۔ اسلام نے چھینک کے آداب میں یا اس جیسے دوسرے موقعوں پر وہ چیزیں صرف فرض کی ہیں جو دور جاہلیت کے باطل عقیدوں کی نفی کرتی ہیں۔ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ دور جاہلیت میں لوگ چھینک کو بد شگونی کی علامت سمجھتے تھے۔ جب اسلام آیا تو اس نے اس باطل عقیدے کی نفی کی اور بتایا کہ چھینک بد شگونی کی علامت ہر گز نہیں ہے۔ اس کے برعکس اسلام نے اس موقع پر اللہ کا شکر ادا کرنے اور رحمت و ہدایت کی دعا کرنے کی تعلیم دی ہے۔ . چھوت چھات کے ذریعے بیماری پھیلنے کا مسئلہ سوال:۔ کیا یہ صحیح ہے کہ اسلام میں چھوت چھات کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور یہ کہ تمام باتیں اللہ کے لکھے ہوئے فیصلہ اور تقدیر کے مطابق ہی ہوتی ہیں۔ اس لیے چھوت چھات سے نہیں ڈرنا چاہیے؟ اس طرح کی باتیں اگر عوام کے ذہن میں بیٹھ جائیں تو انہیں یہ سمجھنا مشکل ہو گا کہ متعدی امراض سے بچنے کی
Flag Counter