Maktaba Wahhabi

224 - 360
چونکہ قسم کھانے کی غرض سے کھائی جاتی ہے اس لیے قسم کھانے والا اس بات کا ذمہ دار ہے کہ اپنی قسم کی حفاظت کرے۔ اگر حفاظت نہیں کرسکا اور قسم ٹوٹ گئی تو اسے قسم کا کفارہ ادا کرناہوگا۔ اس طرح کی قسمیں عموماً دو چیزوں کے لیے کھائی جاتی ہیں۔ ان چیزوں کے لیے جو شرعاً جائز اور نیک کام ہیں یا ان چیزوں کے لیے جو شرعاً ناجائز اور غلط کام ہیں۔ جائز اورنیک کاموں کے لیے قسم کھانے کی مثال یہ ہے کہ مثلاً کوئی یہ کہے کہ بہ خدا میں اب کبھی سگریٹ نہ پیوں گا۔ برے کاموں کے لیے قسم کھانے کی مثال یہ ہے کہ مثلاً کوئی کہے کہ خدا کی قسم میں فلاں رشتے دار سے قطع تعلق کرلوں گا۔ رشتے دار سے قطع تعلق کرنا ناجائز ہے اور ناجائز کام پر قائم رہنا باعث گناہ ہے اس لیے ضروری ہے کہ اس ناجائز کام کو پہلی فرصت میں ترک کیا جائے اور قسم ٹوٹنے کی وجہ سے قسم کاکفارہ ادا کیا جائے۔ آپ نے چونکہ ایک غلط اور شرعاً ناجائز کام کی قسم کھائی تھی اور اس عورت نے آپ کے گھر میں آکر آپ کی قسم توڑ بھی دی اس لیے آپ پر قسم کاکفارہ واجب ہے۔ قسم کا کفارہ ہے دس مسکینوں کو پیٹ بھر کھانا کھلانا یا ایک غلام آزاد کرنا۔ یہ نہیں کرسکتا تو تین دن روزے رکھنا۔ کعبے کی قسم کھانا سوال:۔ کیاکعبے کی قسم کھانا یا عزت کی قسم یااپنے والدین کی قسم کھانا، لغو قسم میں شمار ہوگی؟یالغو قسم سے مراد وہ قسم ہے جو بلاضرورت کھائی جائے؟ جواب:۔ اللہ تعالیٰ یا اس کی صفات حمیدہ کے علاوہ کسی اور کی قسم کھانا اسلام میں حرام ہے۔ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: لا تحلفوا بآبائكم من كان حالفا فلحلف باللّٰه او ليذر اپنے باپوں کی قسم نہ کھاؤ جسے قسم کھانی ہے وہ اللہ کی قسم کھائے ورنہ قسم نہ کھائے ۔
Flag Counter