Maktaba Wahhabi

67 - 360
ہے کیوں کہ ہماری عقل اور علم کو بہت سارے میدان سر کرنے ہیں۔ 3۔ یہ بات بھی صحیح نہیں ہے کہ مکھیوں کے ذریعے علاج کرنے کا تصور میڈیکل سائنس میں بالکل مفقود ہے۔ پُرانے زمانے میں بھی مکھیوں کے ذریعے مختلف علاج ہوتے رہے ہیں اور عصر حاضر میں بھی سرجری کے بعض شعبوں میں مکھیوں کے ذریعے علاج کیا گیا ہے۔ رواں صدی کی پہلی تین دہائیوں میں تو مکھیاں اسی مقصد کے لیے پالی جاتی تھیں۔ اس علاج کی بنیاد یہ ہے کہ مکھیوں میں کچھ ایسے بکٹیریا کا انکشاف ہوا ہے جو جراثیم کُش ہیں۔ انہیں جراثیم کی سرکوبی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ 4۔ اس حدیث میں اس بات سے خبردار کیاگیا ہے کہ مکھیوں میں بیماری کے جراثیم ہیں اور اس بات کا انکشاف جدید سائنس نے صرف دو صدی قبل کیا ہے۔ 5۔ اس حدیث میں اس بات کی بھی خبردی گئی ہے کہ مکھیوں میں شفا کا پہلو بھی ہے۔ یعنی کچھ ایسے مادے ہیں جو جراثیم کش ہیں اور اُس زہر کا اثر زائل کرنے والے ہیں جوزہر خود یہ مکھیاں لے کر آتی ہیں۔ میڈیکل سائنس کے مطابق بکٹیریا جب ایک خاص تعداد میں ہوتے ہیں تو ایک دوسرے پر حملہ آور ہوتے ہیں اور ان میں ہر ایک کچھ زہریلے مادوں کی پچکاری سے دوسرے کی جان کے درپے ہوتا ہے۔ اس زہریلے مادوں کو علاج کی خاطر استعمال کیا جاتا ہے جسے ہم اصطلاح میں مضاد حیوی یعنی(Anti.Biotic) بھی کہتے ہیں۔ فی زمانہ مضاد حیوی دواؤں کا استعمال زوروں پر ہے۔ 6۔ یہ حدیث اس بات کی تعلیم تو نہیں دیتی کہ ہم مکھیوں کا شکار کریں اور پھر زبردستی اپنے برتن میں ڈبوئیں تاکہ اس سے شفا حاصل کرسکیں اور نہ اس بات کی طرف آمادہ کرتی ہے کہ ہم ا پنے برتن کھلے ر کھیں یا گھر گندارکھیں تاکہ زیادہ سے زیادہ مکھیاں آئیں۔ بلکہ اس کے برعکس بے شمار ایسی حدیثیں ہیں جو صفائی اور ستھرائی کی تعلیم دیتی ہیں بلکہ اس کی تائید کرتی ہیں۔
Flag Counter