Maktaba Wahhabi

323 - 360
اور غیر اسلامی ہیں اور انہیں تبدیل ہونا چاہیے۔ اور جب بھی اسے موقع میسر ہوانہیں تبدیل کرنے کی پوری کوشش کرے۔ اگرکوئی مسلمان ان مغربی قوانین کے تحت محکوم ہوکر زندگی گزاررہا ہے تو ضروری ہے کہ اسے گھٹن اورگناہ کاشدید احساس ہو۔ اگر اس کے پاس یہ احساس بھی نہیں ہے تو اس کامطلب یہ ہے کہ اس کا ایمان مردہ ہوچکا ہے۔ اس موقعے پر میں یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ ان جیسے مسائل کے حل کے لیے ایسا فتویٰ دینا جس میں مغربی قوانین اور مغربی تہذیب سے مصالحت اور(Compromise) کی بوآتی ہو ایک زبردست غلطی ہے۔ یہ اس بات کا اشارہ ہوگا کہ ہم نے ان مغربی قوانین کے مقابلے میں فکری اور روحانی شکست تسلیم کرلی ہے۔ ایسی زندگی سے کیا حاصل جس میں ہماری اپنی عقل اور مرضی کا عمل دخل نہ ہو بلکہ اسلام کے دشمنوں کی مرضی کے مطابق تشکیل پائی ہوئی زندگی ہو؟جس میں ہمارے قوانین رائج نہ ہوں بلکہ زندگی گزارنے کے لیے ہم اپنے دشمنوں سے قوانین اُدھارلیں۔ آزادی اور بالادستی کا تقاضا ہے کہ ہم ان اُدھار کے قوانین سے نجات حاصل کریں اور مصمم ارادے کے ساتھ تہیہ کریں کہ ان غیر اسلامی قوانین کو کسی قیمت پر بھی اختیار نہیں کرنا ہے۔ اس تمہید کے بعد میں آپ کے سوالوں کی طرف آتا ہوں: جہاں تک سامان تجارت کے انشورنس کا تعلق ہے تو یہ چیز جائز ہوسکتی ہے اگر اس میں سود کی ملاوٹ نہ ہو۔ لیکن صورت حال یہ ہے کہ موجودہ قوانین کے تحت سود سے پاک انشورنس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس لیے میری رائے میں سامان تجارت کا انشورنس صرف مجبوری اور اضطراری حالت ہی میں جائز ہوسکتا ہے۔ البتہ لائف انشورنس تو کسی صورت میں جائز نہیں ہے۔ تجارت میں توسیع کی خاطر بینک سے قرض لینا قطعاً حرام ہے۔ کیونکہ ایسی صورت میں انسان سود دینے کا مرتکب ہوگا اور سود لینا یا دینا دونوں ہی حرام ہیں۔ بینک سے قرض لینا انتہائی مجبوری کی حالت میں جائز ہوسکتا ہے۔ مثلاً بال بچوں کے پیٹ
Flag Counter