Maktaba Wahhabi

322 - 360
نظام حیات رائج ہو۔ لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے مغربی تہذیب اور مغربی قوانین کو اپنا رکھا ہے خاص کر معاشی معاملات میں جن کی بنیاد اسلامی بنیادوں سے بالکل مختلف ہے۔ چنانچہ مغربی نظام معیشت کاسارا دارومدار سود پر ہوتا ہے جبکہ اسلامی نقطہ نظر سےسود اللہ اور اس کے رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے خلاف اعلان جنگ کے مترادف ہے۔ مغربی قوانین کو اپنانے کی وجہ سے بعض ایسی پریشانیاں اور مسائل جنم لیتے ہیں جن کی وجہ سے فرد مسلم حیران وپریشان ہوجاتا ہے اور دین اسلام سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ ان مسائل کا حل پیش کرے ۔ ہماری غلطی یہ ہے کہ ہم دین اسلام سے ان مسائل کا حل مانگتے ہیں جنہیں اسلام نے نہیں بلکہ مغربی تہذیب نے جنم دیا ہے۔ پہلے ہم مکمل مغربی نظام معیشت اور سودی بینک کے سسٹم کو اپنا لیتے ہیں اور اس کے بعد دین اسلام سے امید کرتے ہیں کہ اس سسٹم کی وجہ سے جو مسائل پیدا ہوتے ہیں اسلام ان کاحل پیش کرے۔ اگر آپ واقعی اسلام سے ان کا حل مانگتے ہیں تو اسلام کا دو ٹوک جواب یہ ہے کہ آپ ان مغربی قوانین کے بجائے اسلامی قوانین کی طرف پیش قدمی کریں۔ مغربی طرز کے بینکوں کو الوداع کہیں اور ان کی جگہ اسلامی قوانین کی بنیاد پر اسلامی بینک کی داغ بیل ڈالیں۔ اگر یقین محکم اور مضبوط ارادہ ہوتو یہ کوئی مشکل اور ناممکن کام نہیں ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ ایک فرد کی کیا غلطی ہے اگر پورا معاشرہ اور پورا حکومتی ڈھانچہ اسلام سے منحرف ہو۔ اکیلا شخص کیا کرسکتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ افراد ہی سے معاشرے کی تشکیل ہوتی ہے۔ اگر فرد واحد ان مغربی قوانین پر خاموش تماشائی بنا بیٹھا ہے اور ان قوانین کے مطابق زندگی گزارتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ان قوانین پر راضی ہے۔ بلکہ اس سے بڑھ کر وہ ان قوانین کو زندہ رکھنے میں شریک کار ہے۔ ایک مسلمان کو چاہیے کہ وہ ان مغربی قوانین پر کبھی مطمئن ہوکر نہ بیٹھ رہے ۔ ضروری ہے کہ اس کا شعور بیداررہے کہ یہ سارے قوانین باطل
Flag Counter