Maktaba Wahhabi

319 - 360
میں مددگار ثابت ہو۔ اسلام کی نظر میں گناہ کرنے والا اورگناہ میں مددگار بننے والا دونوں برابر کے مجرم ہیں۔ اسی لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شراب پینے والا، پلانے والا، بنانے والا، فراہم کرنے والا سب ہی اللہ کی نظر میں ملعون ہیں۔ اسی طرح سود کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "عَنْ جَابِرٍ قَالَ لَعَنَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آكِلَ الرِّبَا وَمُؤْكِلَهُ وَكَاتِبَهُ وَشَاهِدَيْهِ "(مسلم) حضور( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے سود کھانے والے، کھلانے والے اور اس معاملے میں دونوں گواہوں پر لعنت فرمائی ہے ۔ اسی مفہوم کی متعدد احادیث حدیث کی کتابوں میں وارد ہیں اور ساری حدیثیں صحیح ہیں۔ ان ہی احادیث کی بنا پر دیندار حضرات کا ضمیر بینک میں کام کرنے پر مطمئن نہیں ہوتا۔ بینک میں کام کرنے کی وجہ سے ان کاضمیر ہمیشہ عذاب میں مبتلا رہتا ہے۔ تاہم میری رائے میں بینک میں جوسودی نظام رائج ہے اس کاتعلق بینک کے اسٹاف سے نہیں ہوتا ہے ۔ یہ سودی نظام تو بینک کے کاروبار کاایک اٹوٹ حصہ ہے۔ یہ سودی نظام ہمارے پورے معاشی ڈھانچے کاایسا جزو لاینفک بن چکاہے کہ اس سے فرار ممکن نہیں اسی کی طرف یہ حدیث اشارہ کرتی ہے: "لَيَأْتِيَنّ علَى النّاسِ زَمَانٌ لاَ يَبْقَى أحَدٌ إلاّ أكَلَ الرّبَا، فَإنْ لَمْ يَأْكُلْهُ أصَابَهُ مِنْ غُبَارِهِ " (ابوداؤد اور ابن ماجہ) لوگوں پر ایک ایسا وقت آئے گا جب کہ کوئی ایسا نہیں بچے گا جو سود نہ کھاتا ہو۔ اگر وہ سود نہیں کھاتا تو اس کی دھول سے نہیں بچ سکتا(یعنی کچھ نہ کچھ سود وہ ضرور کھائے گا) ۔ یہ ایسی صورت حال ہے کہ بینک کے کسی اسٹاف کے نوکری چھوڑدینے سے اس سودی نظام پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ اس پر اثر اس وقت پڑ سکتا ہے جب پورا معاشرہ مل کر اس کے خلاف کچھ کرے۔ یکبارگی تواس نظام کو بدلنا ممکن نہیں۔ البتہ دھیرے
Flag Counter