Maktaba Wahhabi

101 - 249
لیے جگایا کروں گا اور عمداً اس کے ہاں گیا اور اسے جگایا بھی، لیکن پھر بھی اسے مسجد میں نہ دیکھا۔ نماز کے بعد پھر میں اس کے پاس آیا اور دیکھا کہ وہ سو رہا ہے۔ میں اس سے خفا ہوا تو وہ فضول بہانے بنانے لگا… کبھی کبھی مجھے وہ یوں کہنے لگتا ہے کیا تم قیامت کے دن اللہ کے ہاں میری طرف سے مسؤل ہوگے کہ میں تمہارا ہمسایہ تھا… میں ذات والا سے توقع رکھتا ہوں کہ آپ اس معاملہ میں مجھے مستفید فرمائیں گے۔ نیز کیا نماز کے لیے اسے جگانا مجھ پر لازم ہے؟ (خلیل ۔ا۔ خ۔ الریاض) جواب:… مسلم کے لیے ایسا جاگنا جائز نہیں جس کے نتیجہ میں صبح کی باجماعات نماز یا اس نماز کا وقت ہی ضائع ہو جاتا ہو، خواہ یہ جاگنا قرآن پڑھنے یا علم کے حصول کی بنا پر ہو اور جب یہ جاگنا ٹیلی ویژن دیکھنے، تاش کھیلنے یا ایسی ہی کسی دوسری وجہ سے ہو تو پھر کیا حال ہوگا؟ آپ کا دوست اس کام کی وجہ سے گنہگار ہے اور اللہ تعالیٰ کی سزا کا مستحق ہے، جیسا کہ وہ حاکموں سے بھی سزا کا مستحق ہے جو اسے اور اس جیسے دوسرے لوگوں کو اس سے باز رکھیں اور تمام اہل علم کے نزدیک عمداً فجر کی نماز کو طلوع آفتاب کے بعد پڑھنا کفر اکبر ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ((بَیْنَ الرَّجُلِ وَبَیْنَ الْکُفْرِ وَالشِّرْکِ تَرْکُ الصَّلَاۃ)) ’’نماز چھوڑنے سے آدمی کا کفر وشرک سے فاصلہ ختم ہو جاتا ہے۔‘‘ اس حدیث کو مسلم نے اپنی صحیح میں روایت کیا۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((الْعَھْدُ الَّذی بینَنا وبینَھمُ الصَّلاۃُ، فَمَنْ تَرَکَھا فَقَدْ کَفَرَ)) ہمارے اور ان لوگوں کے درمیان عہد نماز ہے۔ جس نے اسے چھوڑ دیا۔ اس نے کفر کیا۔‘‘ اس حدیث کو امام احمد اور اہل سنن نے بریدہ بن الحصیب رضی اللہ عنہ سے صحیح اسناد کے ساتھ نکالا ہے۔ اس بارے میں دوسری احادیث وآثار بھی موجود ہیں جو ایسے شخص کے کفر پر دلالت کرتی ہیں جو بلا عذر شرعی، جان بوجھ کر نماز کو اس کے وقت سے موخر کر کے ادا کرتا ہے۔ اور مسلم پر واجب ہے کہ وہ وقت پر نماز ادا کرنے کی محافظت کرے اور جو اسے جگا سکتے ہوں، ان سے مدد طلب کرے، خواہ یہ اس کے گھر والے ہوں یا بھائی ہوں۔ الارم والی گھڑی سے نماز کے وقت جاگنے کے لیے بھی مدد لی جا سکتی ہے۔ اور اے سائل! آپ پر لازم ہے کہ اس سلسلہ میں آپ اپنے دوست کی مدد کریں۔ اسے اکثر
Flag Counter