Maktaba Wahhabi

116 - 249
ہو یا اس میں تردد ہو اور کوئی بات طے شدہ نہ ہو یا وہ کرایہ پر دینے کے لیے ہو تو اس میں زکوٰۃ نہیں جیسا کہ اہل علم کی اس بارے میں صراحت ہے۔ چنانچہ ابوداؤد رحمہ اللہ نے سمرۃ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ: ((اَنْ نُخرِجَ الصَّدَقَۃَ مِمَّا نَعُدُّہ للبَیْعِ)) ’’ہم ہر اس مال سے زکوٰۃ نکالیں، جسے ہم فروختنی مال شمار کرتے تھے۔‘‘ ماہوار تنخواہ میں زکوٰۃ کا حکم سوال:… میں ملازم ہوں اور میری تنخواہ تین ہزار ریال ہے۔ کیا مجھ پر زکوٰۃ واجب ہے اور اس کی مقدار کیا ہوگی جبکہ میں اس سے تھوڑی سی رقم یعنی چھ سو ریال خرچ کرتا ہوں۔ (ابراہیم۔ س۔ منطقہ الجنوب) جواب:… جب اس تنخواہ کی رقم پر سال کا عرصہ گزر جائے اور وہ حد نصاب کو پہنچ جائے تو آپ پر زکوٰۃ واجب ہے اور اگر اس سے کم رہے تو اس میں زکوٰۃ نہیں ہے۔ ایسے مال کی زکوٰۃ کیسے نکالی جائے جو وقفوں سے جمع ہوئی ہو؟ سوال:… اگر کوئی شخص مال کا ایک حصہ ایک وقت جمع کرے پھر کچھ مدت بعد اس کا دوسرا حصہ جمع کرے تو اس طرح جمع شدہ مال کی زکوٰۃ کیسے نکالے؟ (مریم۔ م۔ الریاض) جواب:… جب نقدی وغیرہ یا سامان تجارت پر سال کا عرصہ گزر جائے اور وہ حد نصاب کو پہنچ جائے تو اس کی زکوٰۃ نکالے۔ اسی طرح جس مال (یعنی کل مال کے جس حصہ پر) سال گزر جائے، اس کی زکوٰۃ نکالتا جائے۔ اگر وہ کل مال کی زکوٰۃ ادا کر دے جبکہ سال صرف مال کے پہلے حصہ پر ہی گزرا ہو، تو بھی ٹھیک ہے۔ کیونکہ سال گزرنے سے پیشتر زکوٰۃ ادا کر دینا جائز ہے۔ مثلاً وہ رمضان ۱۴۰۳ہجری میں دس ہزار کا مالک تھا۔ پھر ذیقعدہ ۱۴۰۳ہجری میں مزید دس ہزار کا مالک ہوگیا تو وہ پہلے دس ہزار کی زکوٰۃ رمضان ۱۴۰۴ہجری میں ادا کرے گا اور دوسرے دس ہزار کی ذیقعدہ۱۴۰۴ہجری میں۔ اب اگر وہ پورے بیس ہزار کی زکوٰۃ رمضان ۱۴۰۴ہجری میں ادا کر دے تو بھی کوئی حرج نہیں۔ جس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس نے دوسرے دس ہزار کی زکوٰۃ، زکوٰۃ کے واجب ہونے سے پہلے نکال دی اور اس میں کوئی حرج نہیں۔ میرے پاس کچھ رقم ہے جو کسی نے مسجد کے لیے تبرعاً دی تھی یہ رقم میرے پاس سال بھر رہی۔ کیا اس میں زکوٰۃ ہے؟ سوال:… میرے پاس کچھ رقم ہے جو اہل خیر نے مسجد کی تعمیر کے لیے دی تھی۔ یہ رقم سال سے
Flag Counter