Maktaba Wahhabi

151 - 249
وہ اس کا اور (قیامت کو) اس کا معاملہ اللہ کے سپرد اور جو پھر سود لینے لگا تو ایسے لوگ جہنمی ہیں ہمیشہ اس میں جلتے رہیں گے۔ اللہ سود کو نابود کرتا اور صدقات کو بڑھاتا ہے اور اللہ کسی ناشکرے گنہگار کو دوست نہیں رکھتا۔‘‘ نیز اللہ عزوجل نے فرمایا: ﴿یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ ذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰٓوا اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ، فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَ اِنْ تُبْتُمْ فَلَکُمْ رُئُ وْسُ اَمْوَالِکُمْ لَا تَظْلِمُوْنَ وَ لَا تُظْلَمُوْنَ،﴾ (البقرۃ: ۲۷۸۔ ۲۷۹) ’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اگر ایمان رکھتے ہو تو جتنا سود باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو اور اگر ایسا نہ کرو گے تو اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کے لیے تیار ہو جاؤ اور اگر توبہ کر لو (سود چھوڑ دو) تو تم کو اپنی اصل رقم لینے کا حق ہے۔ جس میں نہ دوسروں کا نقصان نہ تمہارا نقصان۔‘‘ اور جیسا کہ پہلے حدیث شریف گزر چکی ہے۔ سودی بنکوں میں امانت رکھنے کا حکم سوال:… اگر کسی کے پاس کچھ نقد رقم ہو اور وہ حفاظت کی خاطر اسے امانت کے طور پر کسی بنک میں رکھے اور سال کا عرصہ گزرنے پر اس کی زکوٰۃ ادا کردے تو کیا یہ اس کے لیے جائز ہے یا نہیں؟ ہمیں مستفید فرمائیے۔ اللہ آپ کو بہتر جزاء عطا فرمائے۔‘‘(عمری۔ ع۔ع۔جدہ) جواب:… سودی بنکوں میں امانت رکھنا جائز نہیں، خواہ وہ اس پر سود نہ لے۔ کیونکہ اس کام میں گناہ اور سرکشی پر اعانت ہے۔ جبکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اس سے منع کیا ہے۔ لیکن جب کوئی شخص اس کام پر مجبور ہو اور سود نہ لے اور اپنے مال کی حفاظت کے لیے سودی بنک کے علاوہ اور کوئی جگہ نہ پائے تو مجبوری کی بنا پر (ان شاء اللہ) اس میں کوئی حرج نہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿وَ قَدْ فَصَّلَ لَکُمْ مَّا حَرَّمَ عَلَیْکُمْ اِلَّا مَا اضْطُرِرْتُمْ اِلَیْہِ﴾ (الانعام: ۱۱۹) ’’اور جو کچھ اللہ نے تم پر حرام کیا ہے، اسے کھول کر بیان کر دیا ہے۔ الا یہ کہ تم کسی بات پر مجبور ہو جاؤ۔‘‘ اور جب کوئی اسلامی بنک یا امانت رکھنے کی جگہ پا لے جس میں گناہ اور سرکشی پر تعاون کی صورت نہ ہو تو اپنا مال اس میں امانت رکھے۔ اب اس کے لیے سودی بنک میں امانت رکھنا جائز نہ ہوگا۔
Flag Counter