Maktaba Wahhabi

178 - 249
خوراک سے نصف صاع طعام دینا واجب ہے۔ اور اگر عورت اپنے خاوند پر لعنت کرے یا اس سے اللہ کی پناہ مانگے تو یہ بات اس عورت پر حرام ہے۔ اس پر لازم ہے کہ اللہ کے حضور توبہ کرے اور اپنے خاوند سے معافی مانگے اور اس بات سے اس کا خاوند اس پر حرام نہیں ہو جاتا اور اس کلام کا اس پر کوئی کفارہ نہیں۔ اسی طرح اگر مرد عورت پر لعنت کرے یا اس سے اللہ کی پناہ مانگے تو وہ اس پر حرام نہیں ہو جاتی البتہ اس کلام کی وجہ سے اس پر توبہ لازم ہے اور اس بیوی سے معافی بھی مانگے جس پر اس نے لعنت کی تھی۔ کیونکہ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان مرد یا عورت پر خواہ اس کی بیوی ہو یا کوئی اور ہو، لعنت کرنا جائز نہیں۔ بلکہ یہ بڑے گناہوں سے ہے۔ اسی طرح عورت کا اپنے کاوند یا کسی دوسرے مسلمان پر لعنت کرنا جائز نہیں۔ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لَعْنُ الْمُومنِ کقَتْلِہ)) ’’مومن پر لعنت کرنا اسے قتل کرنے کی مانند ہے۔‘‘ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((انَّ اللَّعَّانینَ لا یکونونَ شُھَدائَ ولا شُفَعائَ یومَ القیامۃِ)) ’’لعنت کرنے والے قیامت کے دن نہ گواہ بن سکیں گے اور نہ سفارشی۔‘‘ نیز فرمایا: ((سِبقابُ المسلمِ فُسُوقٌ وقِتقالُہ کفرٌ))) ’’مسلم کو گالی دینا گناہ اور اسے قتل کرنا کفر ہے۔‘‘ ایک کلمہ سے تین طلاقوں کا حکم سوال:… ایک ہی مجلس میں ایک کلمہ سے تین طلاق کو یا متفرق تین بار تین طلاق کہنے کو حرام اور ایسا کرنے والے کے گنہگار ہونے کو معتبر سمجھا جاتا ہے۔ لیکن اکثر علماء نے اس میں بہت اختلاف کیا ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ تین طلاقیں واقع ہو جاتی ہیں، دوسرے کہتے ہیں کہ ایک ہی واقع ہوگی اور ایک دوسرا فریق کہتا ہے کہ ایک بھی واقع نہیں ہوتی کیونکہ یہ طلاق بدعی ہے اور جو چیز اللہ تعالیٰ نے مشروع کی تھی، اس کے مخالف ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ وہ حکم صحیح کیا ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو؟ میں جانتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ نے تین طلاقوں کو ایک بنا دیا تھا جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ:
Flag Counter