Maktaba Wahhabi

189 - 249
اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ بیعت کے دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی عورت کے ہاتھ کو نہ چھوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کی بیعت گفتگو سے کیا کرتے تھے۔ اور غیر محرم عورتوں کو بوسہ دینا تو مصافحہ سے بھی بری چیز ہے۔ اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ وہ چچا کی بیٹیاں ہیں یا ماموں کی بیٹیاں ہیں یا ہمسائیاں ہیں یا قبیلہ کی عورتیں ہیں۔ مسلمانوں کے اجماع کے مطابق یہ کام حرام ہے اور حرام بے حیائیوں کے واقع ہونے کے وسائل میں سے ایک بہت بڑا وسیلہ ہے۔ لہٰذا ہر مسلمان کے لیے اس سے بچنا لازم ہے اور ان کاموں کی عادی تمام عورتوں کو اقارب سے اور دوسروں سے پردہ کرنا واجب ہے۔ کیونکہ یہ سب باتیں حرام ہیں۔ اگرچہ لوگ ان کے عادی ہوں اور کسی مسلمان مرد یا عورت کو ایسا کرنا جائز نہیں۔ اگرچہ ان کے رشتہ دار یا اہل وطن ایسا کرنے کے عادی ہوں۔ بلکہ اس کا انکار اور پورے معاشرہ کو اس سے ڈرانا واجب ہے اور مصافحہ یا بوسہ کے بغیر صرف سلام کے ساتھ کلام پر اکتفا کرنا چاہیے۔ ہمارے ہاں یہ رواج ہے کہ جب کوئی سفر سے واپس آئے تو عورتیں رشتہ داروں کا بوسہ لیتی ہیں۔ اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ سوال:… میں آج کل ریاض شہر میں رہتا ہوں اور یہاں میرے رشتہ دار بھی رہتے ہیں، جو انتہائی قریبی ہیں۔ مثلاً میری خالہ کی بیٹیاں، میرے چچاؤں کی بیویاں اور ان کی بیٹیاں۔ میں جب کبھی انہیں ملنے جاتا ہوں تو انہیں سلام کہتا ہوں۔ وہ مجھے بوسہ دیتی اور میرے ساتھ بیٹھ جاتی ہیں اور پردہ نہیں کرتیں اور میں اس طور طریقہ سے تنگی محسوس کرتا ہوں۔ اطلاعاً عرض ہے کہ جنوبی ممالک میں یہ عادت اکثر اور عام ہے۔ اس عادت کے متعلق آپ کیا فرماتے ہیں اور میں اس بارے میں کیا کروں؟ مجھے مستفید فرمائیے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے۔‘‘(عائض۔ ا) جواب:… یہ عادت بری، منکر اور شریعت مطہرہ کے خلاف ہے۔ آپ کے لیے یہ جائز نہیں کہ آپ انہیں بوسہ دیں یا ان سے مصافحہ کریں۔ کیونکہ چچاؤں کی بیویاں، چچا کی اور ماموں کی بیٹیاں آپ کے لیے محرم نہیں ہیں۔ ان پر واجب ہے کہ وہ آپ سے پردہ کریں اور اپنی زینت کو آپ پر ظاہر نہ کریں۔ کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿وَاِذَا سَاَلْتُمُوْہُنَّ مَتَاعًا فَسْئَلُوْہُنَّ مِنْ وَّرَآئِ حِجَابٍ ذٰلِکُمْ اَطْہَرُ لِقُلُوْبِکُمْ وَ قُلُوْبِہِنَّ﴾
Flag Counter