Maktaba Wahhabi

144 - 249
کیا۔ وہ کہتے ہیں: ((لَقَدْ رَأَیْتُ النَّاسَ فِی عَہْدِ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَبْتَاعُونَ جِزَافًا یَعْنِی الطَّعَامَ یُضْرَبُونَ أَنْ یَبِیعُوہُ فِی مَکَانِہِمْ حَتَّی یُؤْوُوہُ إِلَی رِحَالِہِم)) ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں لوگوں کو دیکھا کہ وہ غلہ کے ڈھیر کا سودا کر لیتے اور اسی جگہ بیچ دینے پر انہیں مار پڑتی تھی۔ تاآنکہ وہ اس ڈھیر کو اپنے ٹھکانوں تک نہ لے جائیں۔‘‘ اور اس معنی میں بہت سی احادیث ہیں۔ بیع میں اگر نقد کی نسبت ادھار یا قسطوں میں قیمت زیادہ ہو تو اس کا کیا حکم ہے سوال:… بیع میں اگر نقد کی نسبت ادھار یا قسطوں پر قیمت زیادہ ہو تو اس کا کیا حکم ہے؟ (احمد۔م۔ا) جواب:… معلوم مدت والی بیع جائز ہے جبکہ اس بیع میں معتبر شرائط پائی جاتی ہوں۔ اسی طرح قیمت کی قسطیں کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں جبکہ یہ اقساط معروف اور مدت معلوم ہو۔ چنانچہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿یٰٓا أَ یُّہَا الَّذِیْْنَ اٰمَنُوْْٓا اِذَا تَدَایَنْتُمْ بِدَیْنٍ اِلٓی اَجَلٍ مُّسَمًّی فَاکْتُبُوْْہُ﴾ (البقرۃ: ۲۸۲) ’’اے ایمان والو! جب تم ایک مقررہ مدت کے ادھار پر لین دین کرو تو اسے لکھ لیا کرو۔‘‘ نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَنْ أَسْلَفَ فِی شَیْئٍ فَفِی کَیْلٍ مَعْلُومٍ وَوَزْنٍ مَعْلُومٍ إِلَی أَجَلٍ مَعْلُوم)) ’’جب کوئی شخص کسی چیز میں بیع سلم کرے تو ناپ تول اور مدت معین کر کے کرے۔‘‘ اور بریرہ رضی اللہ عنہا سے متعلق جو صحیحین میں ثابت ہے کہ انہوں نے اپنے آپ کو اپنے مالکوں سے نو اوقیہ میں خرید لیا کہ ہر سال ایک اوقیہ (چاندی) ادا کی جائے گی اور یہی قسطوں والی بیع ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بیع کو معیوب نہیں سمجھا بلکہ خاموش رہے اور اس سے منع نہیں کیا اور اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ قسطوں میں قیمت نقد کے برابر ہو یا مدت کی وجہ سے زیادہ ہو… اور توفیق دینے والا تو اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ کیا ایک بکری کی بیع دو ادھار بکریوں سے جائز ہے؟ سوال:… کیا ایک بکری کی بیع دو یا تین بکریوں سے جائز ہے جو مثال کے طور پر بیس سال یا اس سے بھی زیادہ مدت کے بعد ملیں؟ (سعید ۔ع۔ا۔ الجوۃ) جواب:… علماء کے دو اقوال میں سے صحیح تر قول کے مطابق ایک معین حاضر جانور کی بیع ایک یا زیادہ
Flag Counter