Maktaba Wahhabi

103 - 249
معاف فرما دے۔ میرا ایک دوست ہے جو نہ نماز ادا کرتا ہے اور نہ روزے رکھتا ہے کیا اس سے صلہ رحمی کروں یا نہیں؟ سوال:… میرا ایک دوست ہے جس سے مجھے گہری محبت ہے۔ مگر یہ دوست نہ فرض نمازیں ادا کرتا ہے اور نہ ہی رمضان کے روزے رکھتا ہے۔ میں نے اسے نصیحت کی لیکن اس نے اسے قبول نہیں کیا، کیا اس کی کچھ اصل ہے یا نہیں۔ (موسٰی۔ ح) جواب:… اس شخص اور اس جیسے دوسرے لوگوں سے اللہ کی خاطر بغض وعناد رکھنا لازم ہے، تاآنکہ وہ توبہ کر لیں۔ کیونکہ علماء کے دو اقوال میں سے صحیح تر قول کے مطابق نماز چھوڑ دینا کفر اکبر ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((بَیْنَ الرَّجُلِ وَبَیْنَ الْکُفْرِ وَالشِّرْکِ تَرْکُ الصَّلَاۃ)) ’’نماز چھوڑنے سے آدمی کا کفر وشرک سے فاصلہ ختم ہو جاتا ہے۔‘‘ مسلم نے اپنی صحیح میں اس حدیث کی تخریج کی ہے، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((العھد الذی بیننا وبینھم الصلاۃ، فمن ترکھا فقد کفر)) ہمارے اور ان لوگوں کے درمیان عہد نماز ہے۔ جس نے اسے چھوڑا، اس نے کفر کیا۔‘‘ اس حدیث کو امام احمد اور اہل السنن نے صحیح اسناد کے ساتھ تخریج کی ہے اور اس معنی کی احادیث بہت ہیں۔ کسی شرعی عذر کے بغیر رمضان کے روزے چھوڑنا کبیرہ گناہ ہے اور بعض اہل علم ایسے شخص کو بھی کافر ہی سمجھتے ہیں جو شرعی عذر مثلاً بیماری اور سفر کے بغیر رمضان میں روزے نہیں رکھتا۔ لہٰذا آپ پر لازم ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کی خاطر اس دوست سے نفرت کریں اور اس وقت تک مقاطعہ کریں، جب تک وہ اللہ کے حضور توبہ نہ کرے اور مسلمان حکام پر واجب ہے کہ جن لوگوں کے متعلق انہیں معلوم ہو جائے کہ وہ تارک نماز ہیں ان سے توبہ کرائیں اگر توبہ کر لیں تو خیر، ورنہ قتل کر دیں۔ کیونکہ اللہ رب العزت فرماتا ہے: ﴿فَاِنْ تَابُوْا وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ فَخَلُّوْا سَبِیْلَہُمْ﴾ (التوبۃ: ۵) ’’پھر اگر وہ توبہ کر لیں، نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں تو ان کی راہ چھوڑ دو۔‘‘
Flag Counter