آیت پڑھنے کے بعد ساکت ہوتا ہو اور اگر یہ بات میسر نہ آئے تو دل میں پڑھتا جائے اگر چہ امام وہی کچھ پڑھ رہا ہو پھر اس کے بعد امام کے پڑھنے کے لیے چپ ہوجائے۔ یہ اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے درج ذیل قول میں عموم پایا جاتا ہے:
((لاصلاۃَ لِمنْ لمْ یقرأْ بفاتحۃِ الکتابِ))
’’ جس نے فاتحہ نہیں پڑھی اس کی نماز نہیں ہوتی‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے ۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((لعلَّکُم تَقْرئُ ون خلْفَ إمامِکم قالوُا: نعَمْ قالَ : لاتفْعلُوا إلاَّبفاتحۃِ الکتاب فإنَّہ الاصلاۃَ لمنْ لمْ یقرأْبھا۔))
شاید تم اپنے امام کے پیچھے پڑھتے رہتے ہو؟ صحا بہ کہنے لگے‘‘ہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ ایسا مت کرو۔ البتہ فاتحہ الکتاب پڑھ لیا کرو کیونکہ جس نے سورۂ فاتحہ نہ پڑھی اس کی نماز نہیں ہوتی۔‘‘
اس حدیث کو احمد، ابوداؤد اور ابن حبان نے اسناد حسن کے ساتھ روایت کیا ہے ۔ اور یہی دو حدیثیں ہیں جو اللہ عزوجل کے درج ذیل قول کو خاص کرتی ہیں ۔
﴿وَ اِذَا قُرِیَٔ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَ اَنْصِتُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ﴾
’’ اورجب قرآن پڑھا جائے تو اسے غور سے سنو او رخاموش رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے ۔‘‘ (الاعراف: ۲۰۴)
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کو بھی:
((إنَّما جُعِلَ الامامُ لِیُؤتَمَّ بہ فلاَ تخْتلِفُوا علیہ، فإذا کبَّر فکبَّروا وإذآ قرَأَ فأنْصِتُوا۔))
’’ امام تو بنایا ہی اس لیے جاتا ہے کہ اس کی اقتدار کی جائے لہٰذا اس کے خلاف کچھ نہ کرو۔ جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ پڑھے تو تم خاموش رہو۔‘‘
مسلم نے اس حدیث کو اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔
اگر مقتدی نماز میں قراء ت کی آواز بلند کرے تو کیا حکم ہے؟
سوال:… دوران نماز مقتدی اگر قراء ت کی آواز کرے جبکہ پیچھے اس مقتدی کے پہلو میں دوسرے مقتدی ہوں ، تو اس کا کیا حکم ہے؟
عبدالرزاق ۔ س۔ القصیم
جواب:…دوران نماز مقتدی کے لیے سنت یہی ہے کہ وہ اپنی قرا ء ت ، باقی اذکار اور دعائیں سب دھیمی آواز سے کرے ۔ کیونکہ اس بلند آواز سے پڑھنے پر کوئی دلیل موجود نہیں اور اس لیے بھی کہ اس کی بلند آواز سے پڑھنے سے اردگرد کے نمازیوں کو تشویش ہوگی۔
|