Maktaba Wahhabi

155 - 249
قرض کی ادائیگی کا حکم جبکہ کرنسی کی قیمت میں اختلاف ہو سوال:… مجھے مستفید فرمائیے۔ میں نے اپنے حالات سے مجبور ہو کر ایک غیر مسلم سے کچھ رقم قرض لی کہ میں اس کے عوض اسے اتنی مالیت کی آزاد یعنی غیر ملکی کرنسی ادا کروں گا۔ جب میں سعودیہ میں اپنے کام پر واپس آؤں گا۔ جب میں کچھ عرصہ بعد واپس آیا تو آزاد کرنسی کی قیمت چڑھ چکی تھی۔ اب وہ اس رقم سے دگنی بنتی ہے جو میں نے اس سے قرض لی تھی۔ اب کیا میں اسے کرنسی کے اس فرق کے باوجود آزاد کرنسی میں رقم بھیجوں؟ یا صرف اتنی ہی بھیجوں جو میں نے اس سے قرض لی تھی؟ (ح۔ع۔م۔ الریاض) جواب:… یہ قرض درست نہیں۔ کیونکہ درحقیقت یہ موجودہ کرنسی کی دوسری کرنسی سے ادھار بیع ہے اور یہ معاملہ سودی ہے۔ کیونکہ ایک کرنسی کی دوسری کرنسی سے دست بدست بیع ہی جائز ہو سکتی ہے۔ آپ کے لیے ضروری یہی ہے کہ آپ صرف وہی رقم واپس کریں جو اس سے قرض لی تھی اور اس بات پر سچی توبہ بھی کر لیں جو یہ سودی معاملہ چل نکلا تھا۔ اور توفیق دینے والا تو اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ کسی کو اس شرط پر قرض دینے کا کیا حکم ہے کہ وہ مستقبل میں اتنا ہی قرض مجھے بھی دے گا؟ سوال:… کسی شخص کو اس شرط پر قرض دینے کا کیا حخم ہے کہ وہ ایک معینہ مدت کے بعد رقم واپس کرے پھر وہ آپ کو اتنی ہی رقم مدت کے لیے قرض دے۔ کیا یہ معاملہ اس حدیث کے تحت آتا ہے: (ہر وہ قرض جو نفع کھینچ لائے، وہ سود ہے)… یہ خیال رہے کہ میں نے اس سے کسی زیادتی کا مطالبہ نہیں کیا؟ (عبدالرحمن۔ ن۔ الریاض) جواب:… یہ قرض اس لیے جائز نہیں کہ اس میں نفع کی شرط ہے اور وہ نفع بعد والا قرض ہے اور علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ہر وہ قرض جس میں کسی منفعت کی شرط ہو، وہ سود ہوتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے ایک جماعت نے جو فتویٰ دیا وہ اسی بات پر دلالت کرتا ہے۔ رہی وہ حدیث جس کا ذکر کیا گیا ہے کہ ’’ہر وہ قرض جو نفع کھینچ لائے وہ سود ہے‘‘ تو یہ حدیث ضعیف ہے۔ ایسے قرض کے ممنوع ہونے کا انحصار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فتویٰ اور اہل علم کے اجماع پر ہے… اور توفیق دینے والا تو اللہ تعالیٰ ہی ہے۔
Flag Counter