Maktaba Wahhabi

46 - 460
کے علاوہ رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان [کا درجہ] نہیں۔‘‘[1] اس سے معلوم ہوا کہ منکرات کے ازالے کا [حسبِ استطاعت] ہر مسلمان ذمے دار ہے،بلکہ یہ اس کے ایمان کی کسوٹی ہے،اگر ایک مسلمان منکر کے ازالے اور خاتمے کے لیے سعی کرتا ہے یا کم سے کم اسے بُرا سمجھتا ہے تو یہ اس کے ایمان کی دلیل ہے اور اگر بُرائی کو دل میں بھی بُرائی نہیں سمجھتا تو سمجھ لو کہ اس کا دل ایمان کے کمزور ترین درجے سے بھی محروم ہوگیا ہے۔ سورۃ البقرہ (آیت:۴۴) میں ارشادِ الٰہی ہے: {اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَ تَنْسَوْنَ اَنْفُسَکُمْ وَ اَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْکِتٰبَ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ} ’’(یہ) کیا (عقل کی بات ہے کہ) تم لوگوں کو نیکی کرنے کو کہتے ہو اور اپنے آپ کو فراموش کیے دیتے ہو،حالانکہ تم (اللہ تعالیٰ کی) کتاب بھی پڑھتے ہو،کیا تم نہیں سمجھتے؟‘‘ 7۔حضرت ابو زید اسامہ بن زید بن حارثہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: ’’قیامت والے دن آدمی لایا جائے گا اور آگ میں ڈال دیا جائے گا،پس اس کی انتڑیاں باہر نکل آئیں گی۔وہ انھیں لے کر ایسے گھومے گا جیسا گدھا چکی میں گھومتا ہے،اس کے گرد جہنمی جمع ہو جائیں گے اور کہیں گے:اے فلاں ! تجھے کیا ہوا ہے؟ کیا تو نیکی کا حکم نہیں دیتا تھا اور برائی سے نہیں روکتا تھا؟ وہ کہے گا:ہاں،یقینا میں وہی ہوں،لیکن میرا
Flag Counter