Maktaba Wahhabi

74 - 363
درجے کے ہیں‘‘۔ [1] مشہور صحابئ رسول (ابن عمر رضی اللہ عنہ) کی طرف ایک قول کی غلط نسبت: انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ جناب اصلاحی صاحب نے ’’پہلے گروہ کی رائے‘‘ کے زیر عنوان واقدی جیسے مشہور زمانہ کذاب کے قول کو ایک صحابئ رسول حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی طرف منسوب کر دیا ہے، فانا للہ وانا الیہ راجعون ؎ چہ نسبت ایں زرہ خاک بہ آفتاب را جناب اصلاحی صاحب کی شان محدثیت اور علوم حدیث پر تدبر و تفکر کی اعلیٰ صلاحیتوں کا بخوبی اندازہ اسی ایک مثال سے کیا جا سکتا ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ ایسا کوئی شخص جو احادیث کے رجال میں تمیز و شناخت ہی سے کورا ہو وہ علوم حدیث کی کوئی قابل قدر خدمت انجام دے سکتا ہے۔ بہرحال ہم ذیل میں اس غلط نسبت کے اسباب تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں: جناب اصلاحی صاحب نے اس قول کو اپنی کتاب میں ’’الکفایۃ فی علم الروایۃ‘‘ کے باب: ’’القول في معني وصف الصحابي أنه صحابي والطريق إلي معرفة كونه صحابيا‘‘ کے حوالہ سے درج فرمایا ہے۔ مذکورہ باب کی طرف رجوع کرنے پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اگر آں محترم نے دانستہ طور پر ایسا نہیں کیا تو یقیناً آں موصوف کو خطیب بغدادی رحمہ اللہ کی عبارت میں ’’قال ابن عمر‘‘ دیکھ کر ہی یہ غلط فہمی لاحق ہوئی ہے۔ اگر جناب اصلاحی صاحب علامہ خطیب رحمہ اللہ کی عبارت پر ذرا غور و ’’تدبر‘‘ فرما لیتے تو آنجناب کے لئے اس عقدہ کی حقیقت تک پہنچنا کچھ دشوار نہ تھا۔ علامہ خطیب رحمہ اللہ کی عبارت اس طرح ہے: ’’أخبرني الحسين بن أبي الحسن الوراق ثنا عمر بن أحمد الواعظ حدثںا محمد بن إبراهيم ثںا محمد بن يزيد عن الحارث عن ابن سعد عن الواقدي محمد بن عمر قال أخبرني طلحة بن محمد بن سعيد بن المسيب عن أبيه قال -- الخ‘‘ پھر اسی پیراگراف میں مسلسل یوں لکھتے ہیں: ’’قال ابن عمر و رأيت أهل العلم يقولون۔۔‘‘ [2] اس عبارت میں ’’ابن عمر‘‘ سے علامہ خطیب کی مراد کوئی اور نہیں بلکہ محمد بن عمر الواقدی ہی ہے جو کہ اپنے ہم عصر بعض اہل علم حضرات سے اس قول کی حکایت کرتا ہے۔ جو لوگ علامہ خطیب رحمہ اللہ کے طرز نگارش سے واقف ہیں
Flag Counter