اسی طرح بعض علماء کا قول ہے کہ:
’’افتاء اور مناظرہ کی حکایت کے برخلاف روایت اور تبلیغ خاص میں روایت بالمعنی جائز نہیں ہے‘‘۔ [1]
شیخ رضی الدین ابن الحنبلی حنفی رحمہ اللہ نے ایسی حدیث کی بالمعنی روایت کے لئے کہ جس میں عام کے خاص اور حقیقت کے مجاز ہونے کا احتمال ہو صرف مجتہد کو ہی مجاز قرار دیا ہے، چنانچہ لکھتے ہیں:
’’الأصح أن الحديث إن كان مشتركا أو مجملا أو متشابها أو من جوامع الكلم لم يجز نقله بالمعني، أو حكما جاز للعالم باللغة، أو ظاهرا يحتمل الغير كعام يحتمل الخصوص أو حقيقة يحتمل المجاز جاز للمجتهد فقط‘‘ [2]
روایت بالمعنی کی مختلف النوع مذکورہ بالا تمام شرائط میں سے جن چند شرائط پر اکثر علماء و محققین کا اتفاق ہے وہ حسب ذیل ہیں:
(1) راوی عربی زبان کے اسرارورموز سے بخوبی آگاہ ہو۔
(2) شریعت کی غایات و مقاصد کو جانتا ہو۔
(3) جس حدیث کی روایت بالمعنی کرنا چاہتا ہو وہ جوامع الکلم کی قبیل سے نہ ہو۔
(4) وہ حدیث ایسی بھی نہ ہو کہ اس کے الفاظ عبادت شمار ہوتے ہوں مثلاً ادعیہ ماثورہ اور اذکار مسنونہ وغیرہ پر مشتمل حدیث۔
(5) راوی جس حدیث کی روایت بالمعنی کا خواہاں ہے اسے اس کے اصل الفاظ یاد نہ ہوں لیکن اس کا معنی قطعی طور پر محفوظ ہو اور وہ اسے پوری طرح اپنے الفاظ میں ادا بھی کر دے۔
اگر کوئی راوی ان تمام شرائط پر پورا نہ اترے تو اس کے لئے حدیث کی روایت بالمعنی جائز نہیں سمجھی جائے گی، واللہ أعلم۔ مزید تفصیلات کے لئے حاشیہ [3]کے تحت درج شدہ کتب کی طرف مراجعت مفید ہو گی۔
روایت بالمعنی کی صورت میں سلف صالحین کی احتیاط اور اس کی چند مثالیں
صحابہ کرام، تابعین عظام اور محدثین نے ضبط احادیث، حفظ روایت اور نقل و تحمل سنن و آثار کے معاملہ میں حد درجہ حزم و احتیاط فرمائی ہے، چنانچہ امام ذہبی اور امام سخاوی وغیرہما نے خلفائے راشدین اور دیگر صحابہ کرام
|